حیدرآباد (پریس نوٹ) نئی ایجادات انسانی ضروریات کے تابع ہونی چاہئیں۔ کیونکہ ہم نے اندھی ترقی کی دوڑ میں ماحولیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے کیا۔ وہ آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں منعقدہ پہلی بین الاقوامی سائنس کانفرنس 2024 کے افتتاحی اجلاس میں کیا۔ ”سائنس پائیدار مستقبل کے لیے“ کے زیر عنوان کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا۔ پروفیسر حسن نے کہا کہ نوجوان نسل کو صرف سائنس کی جانب ہی نہیں بلکہ سماجی علوم کی اہمیت سے بھی واقف کروانا چاہیے۔ تاکہ وہ سائنس کا استعمال بھی سماجی ذمہ داریوں احساس کے ساتھ کریں۔ پروفیسر سید عین الحسن نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ سائنس کانفرنس میں 23 اسکولوں کے طلبہ کی جانب سے 150 سائنس ماڈلس پیش کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ اردو یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے اردو میں سائنسی علوم کے فروغ کے لیے دور رس اقدامات کیے جارہے ہیں۔ پروفیسر باسوتکر جگدیشور راؤ جو حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں اس کانفرنس میں بطورِ مہمانِ خصوصی موجود تھے۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر جگدیشور راؤ نے کہا کہ معاشی ترقی اگر صرف کل قومی پیداوار میں اضافہ کے لیے مرکوز ہو تو ایسی ترقی ماحولیاتی نظام اور توازن کے لیے نقصاندہ ثابت ہوتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ بنی نوع انسان نے اپنی ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے اپنے اطراف و اکناف کے ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ پروفیسر جگدیشور راؤ کے مطابق ماحولیاتی نقصان کے پس منظر میں حاصل کی جانے والی ترقی بے معنی ہے۔ انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نہ صرف خواتین کو سائنس کے میدان میں آگے بڑھنے کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کر رہی ہے بلکہ طلبہ میں بھی پائیدار دیرپا ترقی کے اہداف کے متعلق شعور بیداری کا بھی کام کر رہی ہے۔
پروفیسر احمد کمال، بٹس پلانی، حیدرآباد کے سینئر ایمریٹس ہیں۔ انہیں اس بین الاقوامی سائنس کانفرنس میں بطورِ سرپرستِ اعلیٰ مدعو کیا گیا تھا۔ اپنے کلیدی خطبہ میں پروفیسر احمد کمال نے کہا کہ آج کے دور میں انسانوں نے اپنے علاج معالجہ کے لیے ترقی کے بہت سارے وسائل اکٹھا کر لیے لیکن یہی وسائل، ماحول اور ماحولیات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے آئی ڈی پی ایل، بالا نگر ، حیدرآباد کی مثال دی۔ اس ادویہ ساز کمپنی کی جانب سے جو صنعتی فضلہ تھا وہ حسین ساگر میں بہایا جاتا تھا جس کے سبب اس تالاب کا پانی استعمال کے قابل نہ رہا اور اس کی آبی زندگی ختم ہو کر رہ گئی۔ لیکن آج ماحولیات کے تحفظ کے حوالے سے کافی قوانین بھی بن گئے ہیں اور صورت حال بھی تبدیل ہوئی ہے۔ اب اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا جارہا ہے کہ ادویہ سازی کی صنعت ہو یا کوئی اور صنعتی فضلے کو مناسب طور پر ٹھکانے لگانا اور ماحولیات کو ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کرنا پہلی ترجیح قرار پایا ہے۔ قبل ازیں پروگرام کے آغاز میں ڈین اسکول آف سائنس پروفیسر سلمان احمد خان نے بین الاقوامی اردو سائنس کانفرنس کے سبھی مہمانوں کا خیر مقدم کیا۔ کانفرنس کے کنوینر ڈاکٹر سید صلاح الدین نے پہلی بین الاقوامی اردو سائنس کانفرنس کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کانفرنس میں اسکولی طلبہ کو بھی خاص طور پر حصہ دار بنایا گیا ہے تاکہ یہ طلبہ آگے چل کر صحت مند، ماحول دوست، دیرپا ترقی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام کریں۔ کانفرنس میں جن 23 اسکولوں کے طلبہ نے شرکت کی ان میں سے بہترین پراجیکٹس کو انعامات اور اسناد سے بھی نوازا گیا۔ اس کانفرنس میں بین الاقوامی شرکاءبھی آن لائن شریک تھے جنہوں نے کانفرنس کے موضوع پر اپنے مقالہ جات پیش کیے۔