واشنگٹن:امریکی فورسز نے جمعے کو عراق اور شام میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے زیر استعمال درجنوں ٹھکانوں پر طیاروں اور ڈرونز سے حملے کیے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ حملے اردن میں ایک امریکی فوجی تنصیب ’ٹاور-22‘ پر ایران کے حمایت یافتہ ایک عسکری گروپ کے ڈرون حملے کے جواب میں کیے گئے جس میں تین امریکی فوجی ہلاک اور 40 کے لگ بھگ زخمی ہو گئے تھے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ فورسز (سینٹکام) نے ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں بتایا ہے کہ فورسز نے عراق اور شام کے اندر پاسداران انقلاب قدس فورس اور اس کے اتحادی ملیشیا گروپوں کے خلاف فضائی حملے کیے ہیں۔ امریکی فورسز نے پچاسی سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں کے لیے کئی ایرکرافٹ استعمال ہوئے جن میں دور تک مار کرنے والے جنگی طیاروں نے امریکہ سے بھی اڑان بھری۔
سینٹکام کے مطابق جن جگہوں کو نشانہ بنایا گیا ان میں ملیشیا گروپوں اور ان کے حامی پاسدان انقلاب کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹرز، انٹیلیجنس سنٹرز، راکٹس، میزائل، بنا پائلٹ کے اڑنے والے فضائی آلات کے سٹوریجز اور ملیشیا گروپوں کے لیے اسلحے کی فراہمی میں استعمال ہونے والی تنصیبات شامل ہیں۔
صدر جو بائیڈن اور وزیر دفاع سمیت ، اعلیٰ امریکی حکام کئی دن سے یہ انتباہ کر رہے تھے کہ امریکہ ملیشیاؤں کے خلاف جوابی کارروائی کرے گا اور انہوں نے یہ واضح کر دیا تھا کہ یہ صرف ایک حملہ نہیں ہو گا، بلکہ عرصے تک جاری رہنے والی سلسلے وار کارروائی ہو گی۔
اس سے قبل شام اور عراق میں عسکری گروپوں پر ہونے والے ان حملوں کے بارے میں عہدے داروں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کیونکہ انہیں اس پر بات کرنے کی اجازت نہیں۔
صدر بائیڈن اردن میں 28 جنوری کو ایک فوجی تنصیب پر کئے جانے والے حملے میں ہلاک ہونے والے تین امریکی فوجیوں کو اسی دن ایک چرچ میں خراج عقیدت پیش کرتے
عہدے داروں کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں پائلٹ بردار اور بغیر پائلٹ کے پرواز کرنے والے طیاروں نے حصہ لیا اور اس ابتدائی کارروائی میں عسکری گروپوں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول ہیڈکوارٹرز، گولہ بارود کے ذخائر اور دیگر تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔
یہ حملے ڈیلاویئر میں ایئر فورس بیس ڈوور پر اردن کے ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے تین امریکی فوجیوں کی میتیں وطن واپس پہنچنے کے چند گھنٹوں کے بعد کیے گئے۔
فوجیوں کی باقیات کی آمد کے موقع پر صدر بائیڈن، اعلیٰ عہدے دار اور غمزدہ خاندان بھی فوجی ایئرپورٹ پر موجود تھے۔
صدر بائیڈن اور خاتون اول جل بائیڈن ڈیلاویئر کے ایئرفورس بیس پر ان تین امریکی فوجیوں کی میتوں کی آمد کے موقع پر خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں جو اردن میں ایک ڈورن حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ جس کے جواب میں امریکہ نے شام اور عراق میں عسکری گروپس کے خلاف حملے شروع کر دیے ہیں
یہ واضح نہیں ہے کہ ان حملوں کے بعد کیا اقدامات کیے جائیں گے، کیونکہ کئی دنوں سے دیے جانے والےامریکی انتباہات سے ہو سکتا ہے کہ عسکری گروپوں کے ارکان منتشر ہو کر چھپ گئے ہوں، جس سے امریکی فورسز کے لیے انہیں ڈھونڈ کر نشانہ بنانا مزید مشکل ہوسکتا ہے۔
لیکن یہ واضح ہے کہ ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں میں سے ایک کتائب حزب اللہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے باوجود کہ وہ امریکی فوجیوں پر حملے معطل کر رہے ہیں، امریکی منصوبوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے جمعرات کو نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے پچھلے سال اکتوبر کے وسط میں عراق میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کتائب حزب اللہ کی طرف سے جاری کردہ اس بیان کو بھی بظاہر مسترد کر دیا تھاکہ وہ امریکہ کے خلاف فوجی کارروائیاں معطل کر رہی ہے۔
ایران پہلے ہی یہ کہہ چکا ہے کہ اردن کے حملے میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔
ہینڈ آؤٹ سیٹلائٹ تصویر اس بیس کا ایک منظر دکھاتی ہے، جسے ٹاور 22 کہا جاتا ہے، جس پر ڈرون حملہ کیا گیا تھا۔جسے امریکی فوجی داعش کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کے ایک حصے کے طور پر چلاتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہم ہمیشہ یہ سنتے ہیں کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں، لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کرتے ہیں، انہوں نے کہاکہ سب کچھ عمل میں ہی ہے۔
آسٹن نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ اردن میں مہلک حملے کے بعد، اس طرح کے بہت کم اور بہت تاخیر سے سامنے ائے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہم ان لوگوں کو جوابدہ ٹھہرانا چاہتے ہیں جو اس کے ذمہ دار ہیں۔اور ہم اس بات کو بھی یقینی بنائیں گے کہ ہم پیش رفت کے ساتھ ساتھ انہیں ان صلاحیتوں سے محروم کرتے رہیں۔”