امپھال: شمال مشرقی ریاست منی پور میں تشدد اب بھی جاری ہے۔ کئی علاقوں میں زمینی کشیدگی کا ماحول ہے۔ اسی سلسلے میں جمعرات کی رات چوراچند پور علاقے میں 400 لوگوں کے ہجوم نے ایس پی آفس پر حملہ کر دیا۔ اس واقعے کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جس میں مشتعل ہجوم پر قابو پانے کے لیے پولیس کو آنسو گیس کے گولے داغنے پڑے۔حیران کن بات یہ ہے کہ ایک پولیس کانسٹیبل کو بھی بے قابو ہجوم کے ساتھ دیکھا گیا، یعنی وہ بھی ایس پی آفس پر حملے کی سازش میں ملوث تھا۔ اس پولیس افسر کو فوری طور پر معطل کر دیا گیا ہے اور معاملے کی جانچ کی جا رہی ہے۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ منی پور میں حالات ابھی بھی قابو میں نہیں ہیں۔ اب کئی ماہ گزر چکے ہیں لیکن پھر بھی حالات معمول پر ہوتے نظر نہیں آتے۔
یہ بات بھی تشویشناک ہے کہ اصل تشدد پچھلے سال اسی جگہ سے شروع ہوا تھا جہاں اس بار تشدد ہوا تھا۔ ایسے میں منی پور کا چورا چند پور علاقہ تشدد کے معاملے میں انتہائی حساس بنا ہوا ہے۔ اس سے پہلے بھی یہاں سے پرتشدد واقعات سامنے آچکے ہیں۔ اس بار حالات مزید کشیدہ ہوگئے کیونکہ شرپسندوں نے پتھراؤ بھی کیا۔ جس کی وجہ سے پولیس کو آنسو گیس کے گولے داغنے پڑے۔
منی پور کیوں جل رہا ہے؟
دراصل، منی پور میں تین برادریاں سرگرم ہیں – ان میں سے دو پہاڑوں میں رہتی ہیں اور ایک وادی میں رہتی ہے۔ میٹی ایک ہندو برادری ہے اور وادی میں رہنے والی آبادی کا تقریباً 53 فیصد ہے۔ دو اور برادریاں ہیں – ناگا اور کوکی، یہ دونوں قبائلی معاشرے سے آتے ہیں اور پہاڑوں میں آباد ہیں۔ اب منی پور میں ایک قانون ہے، جس کے مطابق میتی برادری صرف وادی میں رہ سکتی ہے اور انہیں پہاڑی علاقے میں زمین خریدنے کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ یہ کمیونٹی ضرور چاہتی ہے کہ اسے درج فہرست ذات کا درجہ ملنا چاہیے، لیکن ایسا ابھی تک نہیں ہوا۔