
دوحہ:دوحہ میں اسرائیل کی قطر کے خلاف جارحیت پر بلائی گئی غیر معمولی عرب- اسلامی سربراہ کانفرنس کے اختتامی بیان کے مسودے میں اسرائیل کی ان بار بار کی دھمکیوں کو مکمل طور پر مسترد کردیا گیا ہے کہ وہ دوبارہ قطر یا کسی بھی عرب یا اسلامی ملک کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
بیان میں ان دھمکیوں کو ایک خطرناک اشتعال انگیزی اور کشیدگی قرار دیا گیا ہے جو بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ اس میں عالمی برادری سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان دھمکیوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرے اور ایسے اقدامات کرے جو اسرائیلی دھمکیوں کو روک سکیں۔
یان میں کہا گیا ہے کہ قطر کے خلاف اسرائیل کی یہ “وحشیانہ” جارحیت اور اس کی مسلسل جارحانہ کارروائیاں، جن میں نسل کشی، نسلی تطہیر ، فاقہ کشی، محاصرہ اور توسیع پسندانہ آبادکاری کی سرگرمیاں شامل ہیں، یہ سب خطے میں امن اور پرامن بقائے باہمی کے حصول کے امکانات کو ختم کرتی ہیں اور ان سے اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے کی راہ میں اب تک ہونے والی تمام پیشرفت کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔
دوحہ سربراہ کانفرنس کے مسودے میں عرب اور اسلامی ملکوں کے وزرائے خارجہ نے منگل کو دوحہ کے ایک رہائشی علاقے پر اسرائیل کے بزدلانہ اور غیر قانونی حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی۔ اس علاقے میں قطر کی جانب سے مختلف وفود کی میزبانی کے لیے مختص رہائشی مراکز، سکول، نرسری اور سفارتی مشنوں کے ہیڈکوارٹرز موجود تھے جس کے نتیجے میں ایک قطری شہری سمیت متعدد شہری شہید اور زخمی ہوئے تھے۔
اسی تناظر میں بیان میں اس جارحیت کو ایک عرب اور اسلامی ملک، جو اقوام متحدہ کا رکن بھی ہے، پر واضح حملہ قرار دیا گیا۔ اس حملے کو ایک خطرناک کشیدگی قرار دیا گیا جو انتہا پسند اسرائیلی حکومت کی جارحیت کو بے نقاب کرتا ہے اور اس کے مجرمانہ ریکارڈ میں ایک اور اضافہ ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ ایسا حملہ علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
دوحہ سربراہ کانفرنس کے شرکاء نے زور دیا کہ قطری سرزمین پر یہ حملہ ، خاص طور پر اس صورت میں جب قطر غزہ میں جنگ بندی، جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی کے لیے اہم ثالث کے طور پر کام کر رہا ہے ، ایک سنگین کشیدگی ہے اور امن کی بحالی کی سفارتی کوششوں پر حملہ ہے۔
بیان میں اس حملے کو غیر جانبدار ثالثی کے مرکز پر “جارحیت” قرار دیا گیا جو نہ صرف قطر کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ بین الاقوامی ثالثی اور امن سازی کے عمل کو بھی کمزور کرتی ہے۔ کانفرنس نے اس حملے کی مکمل ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی اور دوحہ کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار اس بنا پر بھی کیا کیونکہ یہ جارحیت تمام عرب اور اسلامی ممالک پر جارحیت ہے۔ شرکاء نے اس بہیمانہ اسرائیلی جارحیت کے جواب میں قطر کے تمام اقدامات اور تدابیر میں اس کے ساتھ کھڑے ہونے کا بھی اعادہ کیا تاکہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اپنی سلامتی، خودمختاری، استحکام اور اپنے شہریوں اور مقیمین کی حفاظت کو یقینی بنا سکے۔
بیان میں قطر کے اس مہذب، دانشمندانہ اور ذمہ دارانہ موقف کی بھی تعریف کی گئی جو اس نے اس “بہیمانہ” حملے کے بعد اختیار کیا ۔ بین الاقوامی قانون کے اصولوں پر اس کی ثابت قدمی اور اپنی خودمختاری، سلامتی اور حقوق کا تمام جائز طریقوں سے دفاع کرنے کے عزم کو بھی سراہا گیا ۔ بیان میں ثالثی کرنے والے ممالک خاص طور پر قطر، مصر اور امریکہ کی غزہ پر حملے کو روکنے کی کوششوں کی بھی حمایت کی گئی۔ اس تناظر میں دوحہ کے تعمیری کردار کی تعریف کی گئی اور اس کی ثالثی کی کوششوں کو سراہا گیا اور کہا گیا کہ اس ثالثی کے امن و استحکام کی کوششوں پر مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
انفرنس کے بیان میں قطر کی علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر متعدد پہل کاریوں کی بھی تعریف کی گئی۔ خاص طور پر انسانی امداد اور ترقی پذیر اور غریب ملکوں میں تعلیم کی حمایت کے شعبوں میں قطرکے اقدامات جو علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر امن اور ترقی کے لیے ایک موثر اور معاون فریق کے طور پر اس کی حیثیت کو بڑھاتے ہیں کو سراہا گیا۔ اسی تناظر میں دوحہ سربراہ کانفرنس کے مسودے میں اس جارحیت کو کسی بھی بہانے سے جائز قرار دینے کی کوششوں کو قطعی طور پر مسترد کردیا گیا۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ یہ جارحیت بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس جارحیت کا مقصد غزہ پر حملے کو روکنے کے لیے جاری کوششوں اور ثالثیوں کو براہ راست سبوتاژ کرنا اور ایک منصفانہ اور جامع سیاسی حل تک پہنچنے کی سنجیدہ کوششوں کو ناکام بنانا ہے۔