
غزہ:اسرائیل کی سیکیورٹی کابینہ نے غزہ پر قبضے کی منصوبہ بندی کی منظوری دے دی ہے۔ یہ بات اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر نے بتائی۔
نیتن یاہو کے دفتر کے مطابق سیکیورٹی کابینہ نے وزیر اعظم کی تجویز منظور کر لی ہے اور واضح کیا کہ اسرائیلی فوج غزہ شہر پر قبضے کی تیاری کرے گی۔
منصوبے میں پوری غزہ کی پٹی پر مرحلہ وار دوبارہ قبضہ شامل ہے اور غزہ شہر کے رہائشیوں کو جنوب کی جانب منتقل کیا جائے گا۔
اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ پورے غزہ پر کنٹرول کے لیے 6 فوجی ڈویژن تعینات کیے جانے کا امکان ہے۔ امریکی خبر رساں ویب سائٹ آکسیوس نے ایک اسرائیلی اہل کار کے حوالے سے بتایا کہ وہاں حماس کے جنگجوؤں کا محاصرہ کیا جائے گا۔
یہ فیصلہ آج جمعے کو علی الصبح کیا گیا جو غزہ پر 22 ماہ سے جاری حملے میں ایک اور سنگین اضافہ ہے۔ یہ حملہ 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیلی بستیوں پر حملے کے بعد شروع ہوا تھا۔
غزہ میں فوجی کارروائیوں کے پھیلاؤ سے بے شمار فلسطینیوں اور تقریباً 20 اسرائیلی قیدیوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو گا اور اسرائیل کی عالمی سطح پر مزید تنہائی بڑھے گی۔ اس وقت اسرائیل پہلے ہی تباہ شدہ غزہ کے تقریباً تین چوتھائی حصے پر قابض ہے۔
غزہ میں قیدیوں کے اہل خانہ کو خدشہ ہے کہ اس اضافی حملے سے ان کے پیارے مارے جا سکتے ہیں، اور ان میں سے کچھ نے بیت المقدس میں سیکیورٹی کابینہ کے اجلاس کے باہر احتجاج کیا۔ سابق اعلیٰ اسرائیلی سیکیورٹی حکام نے بھی اس منصوبے کی مخالفت کی اور خبردار کیا کہ یہ کم فوجی فائدے کے ساتھ ایک سنگین جنگی دلدل میں بدل سکتا ہے۔
جمعرات کو ایک اردنی اہل کار نے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عرب ممالک صرف اسی اقدام کی حمایت کریں گے جس پر فلسطینی متفق ہوں اور فیصلہ کریں۔ یہ بیان ایسے وقت آیا جب بنیامین نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل غزہ کا انتظام سنبھالنے کے لیے اسے عرب فورسز کے حوالے کرنا چاہتا ہے۔
اہل کار نے مزید کہا کہ غزہ میں سیکیورٹی کا انتظام صرف فلسطینی قانونی اداروں کے ذریعے ہونا چاہیے۔
نیتن یاہو نے یہ نہیں بتایا کہ حکمرانی کے انتظامات کیا ہوں گے یا کون سے عرب ممالک اس میں شریک ہوں گے۔
انہوں نے یہ بات جمعرات کو “فوکس نیوز” سے ایک انٹرویو میں کہی۔ وہ وزیروں کے ایک چھوٹے گروپ کے اجلاس سے پہلے فوج کے مزید علاقے پر کنٹرول کے منصوبوں پر بات کر رہے تھے۔
اردنی اہل کار نے کہا “عرب ممالک نیتن یاہو کی پالیسیوں پر متفق نہیں ہوں گے اور وہ اس کی خراب کردہ صورت حال کو درست نہیں کریں گے۔”
دوسری جانب جمعرات کو حماس نے ایک بیان میں کہا کہ نیتن یاہو کے پورے غزہ پر فوجی کنٹرول کے بیانات جنگ بندی مذاکرات کے عمل سے “انحراف” ہیں۔
حماس کا کہنا تھا کہ “نیتن یاہو کے جارحیت بڑھانے کے منصوبے اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ اپنے قیدیوں سے چھٹکارا پانا اور انہیں ذاتی مفادات کی خاطر قربان کرنا چاہتے ہیں”۔
جمعرات کو نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل پورے غزہ پر فوجی قبضہ کرنا چاہتا ہے اور آخرکار اسے “مسلح فورسز” کے حوالے کرے گا جو وہاں مناسب طور پر حکومت کریں۔
“فوکس نیوز” کو دیے گئے انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسرائیل پورے غزہ پر کنٹرول کرے گا، تو انھوں نے کہا “ہمارا ارادہ ہے۔ ہم اسے اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتے۔ ہمیں صرف ایک سیکیورٹی زون چاہیے … ہم اسے چلانا نہیں چاہتے، ہم وہاں حکومتی ادارے کے طور پر موجود نہیں رہنا چاہتے۔”
انھوں نے زور دیا کہ اسرائیل غزہ کا انتظام نہیں کرنا چاہتا بلکہ اسے “عرب فورسز” کے حوالے کرنا چاہتا ہے، اور کہا “ہم اس کا انتظام نہیں کرنا چاہتے۔ ہم اسے عرب فورسز کو دینا چاہتے ہیں جو اسے صحیح طریقے سے چلائیں، ہمارے لیے خطرہ نہ بنیں، اور غزہ کے رہائشیوں کو بہتر زندگی فراہم کریں۔”
ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ “حماس” کی موجودگی میں ممکن نہیں۔