
نئی دہلی: دنیا بھر میں11 جولائی کوعالمی یوم آبادی کے طور پر منایا جاتا ہے اور اسی موقع پر ہندوستان کی آبادی سے متعلق اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے، جس میں اہم اعداد و شمار کا انکشاف ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ہندوستان سال 2025 تک اندازاً 1.46 ارب آبادی کے ساتھ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بنا رہے گا۔ تاہم، ملک کی کل زرخیزی کی شرح 2.1 سے گھٹ کر 1.9 ہو گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی پاپولیشن فنڈ نے منگل کو جاری اپنی تازہ رپورٹ میں یہ معلومات دی ہیں۔
۔2025 کی عالمی آبادی پر رپورٹ کے مطابق، اصل مسئلہ آبادی کے حجم میں نہیں ہے بلکہ اس بات سے جڑی وسیع چیلنجز میں ہے کہ لوگ آزادی اور ذمے داری کے ساتھ خود یہ فیصلہ کر سکیں کہ وہ بچے چاہیں یا نہیں، کب چاہیں اور کتنے بچے چاہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کی موجودہ آبادی 1463.9 ملین ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے، “ہندوستان اب دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 1.5 ارب ہے۔ اس تعداد کے 1.7 ارب تک پہنچنے کی توقع ہے، اس سے پہلے کہ آبادی میں کمی کا رجحان شروع ہو۔
ہندوستان میں آبادی کے حوالے سے کیا سامنے آیا؟
ہندوستان میں موجودہ مجموعی شرحِ تولید فی خاتون 2.0 بچے ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اوسطاً، ہندوستان میں ایک عورت سے اس کی زرخیز عمر (عموماً 15 سے 49 سال) کے دوران دو بچوں کی امید کی جاتی ہے۔ سیمپل رجسٹریشن سسٹم کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق، یہ شرح 2020 سے مستحکم ہے۔
تاہم، نئی رپورٹ میں دکھایا گیا ہے کہ زرخیزی کی شرح کم ہو کر فی خاتون 1.9 بچے رہ گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اوسطاً ہندوستانی خواتین اتنے کم بچے پیدا کر رہی ہیں کہ بغیر ہجرت کے، اگلی نسل میں آبادی کا حجم برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔
اگرچہ پیدائش کی رفتار کم ہو رہی ہے، پھر بھی ہندوستان کی نوجوان آبادی اہم ہے، جس میں 0 سے 14 سال کے بچوں کا تناسب 24 فیصد، 10 سے 19 سال کے نوجوانوں کا 17 فیصد اور 10 سے 24 سال کے افراد کا 26 فیصد ہے۔ جبکہ 68 فیصد آبادی 15 سے 64 سال کی عمر کے درمیان ہے اور بزرگ آبادی (65 سال یا اس سے زیادہ) 7 فیصد ہے۔
سال 2025 کے لحاظ سے، ہندوستان میں پیدائش کے وقت اوسط متوقع عمر مردوں کے لیے 71 سال اور خواتین کے لیے 74 سال رہنے کا اندازہ ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ہندوستان کو درمیانی آمدنی والے ممالک کے گروپ میں شامل کیا گیا ہے، جو تیزی سے آبادیاتی تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ یہاں آبادی کے دُگنا ہونے کا اندازہ اب 79 سال لگایا گیا ہے۔
بہار، جھارکھنڈ اور اتر پردیش جیسے ریاستوں میں اب بھی زرخیزی کی شرح بلند ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان ریاستوں میں مانع حمل کے کم استعمال، کمزور صحت خدمات اور صنفی رویوں کے باعث بغیر منصوبہ بندی اور کم وقفے پر بچے پیدا ہونا عام ہے۔
وہیں دہلی، کیرالہ اور تمل ناڈو جیسے ریاستوں میں زرخیزی کی شرح “ریپلیسمنٹ لیول” یعنی فی خاتون دو بچے سے بھی کم ہو گئی ہے۔ ان علاقوں میں میاں بیوی بچے کی پیدائش کو مؤخر کر رہے ہیں یا بچے پیدا ہی نہیں کر رہے، خاص طور پر تعلیم یافتہ متوسط طبقے کی خواتین میں، جہاں لاگت اور کام-زندگی کے توازن کی وجہ سے بچے پیدا کرنے کا رجحان کم ہوا ہے۔
یو این ایف پی اے میں ہندوستان کے نمائندے آندریا ایم. ووزنار نے کہا، “ہندوستان نے زرخیزی کی شرح کم کرنے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے، جو 1970 میں فی خاتون تقریباً پانچ بچوں سے کم ہو کر آج تقریباً دو بچوں تک آ گئی ہے۔ یہ تعلیم کے بہتر مواقع اور تولیدی صحت کی سہولتوں تک بہتر رسائی کی بدولت ممکن ہوا ہے۔
ووزنار نے مزید کہا کہ اس کامیابی سے زچگی کی اموات کی شرح میں بھی بڑی کمی آئی ہے۔