
شملہ: ہماچل پردیش کے دارالحکومت شملہ کے علاقے سنجولی میں واقع مسجد کی پوری پانچ منزلہ عمارت کو اب غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ میونسپل کارپوریشن کمشنر کی عدالت نے ہفتہ کے روز اس معاملے پر حتمی فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی نچلی دو منزلیں بھی غیر قانونی قرار دے دیں اور انہیں بھی گرانے کا حکم جاری کر دیا۔
اس سے قبل مسجد کی بالائی تین منزلوں کو ہی غیر قانونی قرار دیا گیا تھا، جنہیں 5 اکتوبر 2023 کو گرانے کا حکم دیا گیا تھا اور موقع پر انہیں گرانے کا کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ اب نچلی منزلیں بھی منہدم کی جائیں گی۔ ادھر، وقف بورڈ نے کمشنر کورٹ کے اس فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وقف بورڈ نے کہا ہے کہ جیسے ہی فیصلے کی نقل موصول ہوگی، اسے وقف بورڈ کے سی ای او ظفر اقبال کے سامنے پیش کیا جائے گا، اور اس کے بعد مجاز عدالت میں اس فیصلے کو چیلنج کیا جائے گا۔ وقف بورڈ کا دعویٰ ہے کہ مسجد کی نچلی منزلیں آزادی سے بھی پہلے کی تعمیر ہیں اور انہی کی جگہ موجودہ مسجد بنائی گئی ہے۔ تاہم، متعدد مہلت ملنے کے باوجود وقف بورڈ نچلی منزلوں کی تعمیر کی منظوری، نقشہ، یا زمین کے مالکانہ حق کا کوئی مصدقہ ریکارڈ پیش نہ کر سکا، جس پر کمشنر کی عدالت نے انہیں بھی غیر قانونی قرار دے دیا۔
ہفتہ کی دوپہر تقریباً 12 بجے سے کمشنر کورٹ میں بحث شروع ہوئی۔ عدالت نے وقف بورڈ سے نچلی منزلوں کا ریونیو ریکارڈ، نقشہ، اور تعمیر کی منظوری پیش کرنے کو کہا۔ وقف بورڈ کے وکیل نے کہا کہ ریکارڈ فی الحال دستیاب نہیں اور ابھی اپڈیٹ نہیں ہوا ہے، اور یہ بھی کہا کہ اس مقام پر 1947 سے پہلے مسجد موجود تھی۔ کمشنر نے استفسار کیا کہ جب 2010 میں پرانی مسجد کو منہدم کیا گیا، تو نئی مسجد کی تعمیر کے لیے اجازت کس سے لی گئی؟
اس پر رہائشی سوسائٹی نے بھی اعتراض کیا کہ نئی تعمیر کے لیے میونسپل کارپوریشن سے اجازت لینا لازمی تھا، جبکہ مسجد کمیٹی نے نہ نقشہ پاس کروایا، نہ ہی کوئی این او سی حاصل کی۔ بحث دوپہر 12.50 تک جاری رہی، اس کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔ 1.25 پر دوبارہ سماعت شروع ہوئی اور کمشنر نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ نچلی منزلوں کے لیے وقف بورڈ یا مسجد کمیٹی کے پاس کوئی واضح دستاویزی اجازت نہیں ہے، اس لیے یہ بھی غیر قانونی ہیں اور انہیں بھی منہدم کرنا ہوگا۔
سنجولی کی رہائشی سوسائٹی، جو اس معاملے کو کمشنر کورٹ سے لے کر ہائی کورٹ تک لے گئی تھی، نے اس فیصلے کو تاریخی قرار دیا۔ سوسائٹی کے وکیل جگت پال نے کہا کہ ہم شروع سے ہی کہہ رہے تھے کہ یہ مسجد سرکاری زمین پر غیر قانونی تعمیر کی گئی ہے، اور اب کمشنر کورٹ نے بھی اسے غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ کمشنر کورٹ نے واضح کیا کہ یہ فیصلہ صرف غیر قانونی تعمیرات کے حوالے سے ہے۔
مسجد کس زمین پر بنی ہے، یا اس کا مذہبی پہلو زیر غور نہیں تھا۔ 2010 میں نئی مسجد کی تعمیر کے وقت میونسپل کارپوریشن سے اجازت نہیں لی گئی تھی، جس کی وجہ سے تعمیر غیر قانونی ہے۔ متعدد بار نوٹس جاری ہونے کے باوجود تعمیر کا کام نہیں روکا گیا، اس لیے عدالت نے مکمل عمارت کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ وقف بورڈ کے افسر قطب الدین مان نے کہا کہ ہم اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔
مسجد کی نچلی منزلیں آزادی سے پہلے کی ہیں اور سرکاری ریکارڈ میں مسجد درج ہے، لیکن فی الحال ریکارڈ اپڈیٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہم عدالت میں پیش نہیں کر سکے۔ بالائی منزلیں غیر قانونی تھیں، جنہیں ہم نے خود ہی گرا دیا ہے، مگر نچلی منزلوں کے بارے میں دیے گئے فیصلے کو ہم ہر صورت چیلنج کریں گے۔