
واشنگٹن:وائٹ ہاؤس نے ہفتے کے روز ایران کی جانب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جوہری معاہدے پر بات چیت کے مطالبے کو مسترد کرنے کا جواب دیتے ہوئے باور کرایا ہے کہ ٹرمپ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ تہران کے ساتھ فوجی طاقت یا معاہدے کے ذریعے نمٹا جا سکتا ہے۔
وہائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان برائن ہیوز نے ایک بیان میں کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ایرانی حکومت اپنے عوام اور مفادات کو دہشت گردی سے بالاتر رکھے گی۔
یہ بیانات ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے اس بیان کے بعد سامنے آئے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تہران کو مذاکرات پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔
ٹرمپ نے جمعہ کے روز کہا تھا کہ ایران کے ساتھ جلد ہی کچھ ہونے والا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ امن معاہدے کی امید رکھتے ہیں جو تہران کو جوہری ہتھیار رکھنے سے روکے گا۔
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہاکہ “ہم دوسرے آپشن پر بات کرنے کے بجائے ایران کے ساتھ امن معاہدے تک پہنچنے کی امید رکھتے ہیں۔ ہم ایران کو جوہری ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہم ایران کے ساتھ آخری لمحات میں پہنچ چکے ہیں”۔
ایک اور بیان میں امریکی صدر نے کہا کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے بدھ کے روز ایرانی قیادت کو ایک مکتوب بھیجا تھا، جس میں اس امید کا اظہار کیا گیا تھا کہ وہ مذاکرات پر رضامند ہو جائیں گے۔
ٹرمپ نے جمعہ کے روز فاکس بزنس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ”میں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ آپ مذاکرات کریں گے، کیونکہ یہ ایران کے لیے بہت بہتر ہوگا”۔
انہوں نے کہا کہ”میرے خیال میں وہ اس پیغام کو پہنچانا چاہتے ہیں۔ دوسرا متبادل یہ ہے کہ ہم کچھ کریں، کیونکہ ہم دوسرے جوہری ہتھیار کی اجازت نہیں دے سکتے”۔
ٹرمپ نے کہا کہ “ایران سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں۔ایک طریقہ فوجی طاقت سے نمٹنے کا ہے اور دوسرا ایک ڈیل کرنا ہے۔میں ڈیل کو اس لیے پسند کرتا ہوں کہ میں ایران کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتا”۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ اگر ہم نے اسے فوجی طور پر نمٹنا ہے تو یہ ان کے لیے بہت خوفناک ہوگا”۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ پیغام ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای کو دیا گیا تھا۔
نیویارک میں اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے جمعے کے روز کہاتھا کہ تہران کو ابھی تک کوئی خط موصول نہیں ہوا ہے جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اس نے جوہری معاہدے پر بات چیت کی کوشش میں ملک کی قیادت کو ایک مکتوب بھیجا ہے۔
دوسری جانب ایران کے اعلیٰ ترین سکیورٹی ادارے سے منسلک ایک نیوز ایجنسی نے کہا کہ ٹرمپ کے تہران کے بارے میں بیانات اور ان کی مذاکرات کی پیشکش میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔
“نور نیوز” ایجنسی نے “ایکس” پلیٹ فارم پر رپورٹ کیاکہ “خارجہ پالیسی میں ٹرمپ کا انداز نعرے، دھمکیاں، عارضی کارروائی اور پسپائی” پر مشتمل ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ “ایران کے بارے میں پہلے اس نے کہا کہ وہ محاذ آرائی نہیں چاہتے۔ پھر اس نے زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی پر دستخط کیے، پھر نئی پابندیاں لگائیں، اور اب وہ قیادت کو مذاکرات کی دعوت کے ساتھ پیغام بھیجنے کی بات کر رہے ہیں! یہ امریکہ کی طرف سے بار بار کی پیشکش ہے”۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے جمعہ کے روز ایجنسی فرانس پریس (اے ایف پی) کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ جب تک ٹرمپ “زیادہ سے زیادہ دباؤ” کی پالیسی جاری رکھیں گے ان کا ملک اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کرے گا۔
ایک متعلقہ تناظر میں روسی وزارت خارجہ نے جمعے کے روز کہا کہ نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے ایرانی سفیر کاظم جلالی کے ساتھ ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق صورتحال کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی ملاقات جمعرات کو ہوئی تھی۔
ایران اور بڑی بین الاقوامی طاقتوں نے برسوں کی کشیدگی کے بعد تہران کے جوہری پروگرام پر 2015 میں ایک معاہدہ کیا تھا۔
اس معاہدے کے تحت تہران پر عائد اقتصادی پابندیاں اٹھانے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس کے بدلے میں اس کی جوہری سرگرمیوں میں کمی اور اس کی پرامن نوعیت کی تصدیق کی گئی تھی لیکن 2018 میں امریکہ کے یکطرفہ طور پر اس سے دستبرداری کے بعد سے یہ معاہدہ کالعدم سمجھا جاتا رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور اقتدار میں ایران کے جوہری معاہدے سے دستبرداری کے بعد واشنگٹن نے تہران پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ جب کہ ایران نے معاہدے کے تحت اپنی بیشتر بنیادی ذمہ داریوں سے آہستہ آہستہ پہلو تہی اختیار کی۔