کابل:القاعدہ کے سابق رہ نما ایمن الظواہری کی ہلاکت کے ڈیڑھ سال سے زائد عرصے بعد لانگ وار جرنل کی ویب سائٹ کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ القاعدہ افغانستان میں تربیتی کیمپوں کی تعمیر اور دینی مدارس کو کنٹرول کر کے افغانستان میں اپنی سرگرمیاں بڑھا رہی ہے۔
ایک متعلقہ تناظر میں،اقوام متحدہ کی ماہرین کی ایک کمیٹی نے ایک نئی رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان اور افریقی براعظم کے تنازعات والے علاقوں میں القاعدہ اور داعش اور ان سے منسلک گروپوں سے لاحق خطرہ زیادہ برقرار ہے اور خطرے کی سطح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
۔23 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کمیٹی نے کہا کہ افغان طالبان حکمرانوں اور القاعدہ کے درمیان تعلقات اب بھی ’قریبی‘ سطح کےہیں۔
ماہرین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں 16 دسمبر 2023ء تک کی مدت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ بدھ کو تقسیم کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے اندر سب سے بڑا خطرہ داعش سے آتا رہتا ہے، جس کی خطے کے اندر اور باہر توسیع کی صلاحیت موجود ہے۔
علاقائی سطح پر ماہرین نے پڑوسی ممالک ایران اور پاکستان میں حملوں کے سلسلے اور وسطی ایشیائی ممالک میں خطرات کی طرف اشارہ کیا۔
کمیٹی نے کہا کہ تاہم اگرچہ القاعدہ سے وابستہ گروپوں میں سے کسی نے بھی دور دراز علاقوں میں آپریشن شروع کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کی ہے، لیکن وہ عالمی عزائم رکھتے ہیں اور ایسی معلومات حاصل کی گئی ہیں جو ان کی فوجی صلاحیتوں کو دوبارہ بنانے کے لیے خفیہ کوششوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔
داعش نے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ قبل القاعدہ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی جس نے دنیا بھر سے حامیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ 2017ء میں عراق اور دو سال بعد شام میں شکست کے باوجود کمیٹی نے کہا کہ دونوں ممالک میں داعش کی مشترکہ طاقت اب بھی 3000 سے 5000 جنگجوؤں کے درمیان ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ عسکریت پسندعراق میں خفیہ دہشت گرد سیلوں کے ساتھ کم شدت کے حملے کر رہے ہیں جبکہ شام میں گذشتہ نومبرسے ان کے حملوں میں تیزی آئی ہے۔
کمیٹی نے کہا کہ داعش کے موجودہ رہ نما ابو حفص الہاشمی القریشی کے بارے میں اعلان کرنے میں تین ماہ کی تاخیر اس کے ’نامعلوم‘ پیش رو کی لڑائی کے دوران مارے جانے کے بعداندرونی مشکلات اور سلامتی کے چیلنجوں کا اشارہ ہے جو تنظیم کو درپیش ہیں۔