دمشق:اسرائیل نے پیر کے روز شام کے کئی علاقوں میں مختلف عسکری مقامات کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا۔ شام میں انسانی حقوق کی رصد گاہ “المرصد” کے ڈائریکٹر رامی عبدالرحمن کے مطابق ان حملوں کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی۔
رامی کا کہنا ہے کہ صدر بشار الاسد کی حکومت کے سقوط اور بشار کے ملک سے فرار ہونے کے بعد اسرائیل، شام کی فوجی صلاحیتیں تباہ کر رہا ہے۔
اسرائیل نے پیر کے روز عالمی سلامتی کونسل کو آگاہ کیا تھا کہ کہ اس نے شام کے ساتھ سرحد پر ہتھیاروں سے خالی پٹی میں “محدود اور عارضی اقدامات” کیے ہیں جن کا مقصد تا کہ کسی بھی خطرے کا مقابلہ کیا جا سکے بالخصوص گولان کے پہاڑی علاقے کی آبادی کے لیے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔
ادھر امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کا کہنا ہے کہ “یہ ایک عارضی اقدام ہے جو انھوں (اسرائیل) نے اس علاقے سے شامی فوج کے انخلا کے جواب میں کیا ہے۔ بالآخر اب ہم جو چیز دیکھنا چاہتے ہیں وہ اس معاہدے کی مکمل پاسداری ہے، ہم اس پر نظر رکھیں گے تا کہ دیکھ سکیں کہ اسرائیل ایسا کر رہا ہے”۔
شام میں دو سیکورٹی ذرائع نے پیر کے روز بتایا کہ اسرائیل نے شام میں مرکزی فضائی اڈوں پر بم باری کی اور وہاں درجنوں فوجی ہیلی کاپٹروں اور لڑاکا طیاروں کو تباہ کر دیا۔
اسرائیل نے تشویش کے ساتھ شام میں شورش پر نظر رکھی اور ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں ایک اہم تزویراتی تبدیلی کا جائزہ بھی لیتا رہا۔
بشار الاسد کی حکومت کے سقوط کے نتیجے میں ایران کا (جو اسرائیل کا شدید دشمن ہے) گڑھ ختم ہو گیا جہاں سے وہ خطے میں اپنے رسوخ کا استعمال کرتا تھا۔ اپوزیشن گروپوں کی جانب سے تیزی کے ساتھ یقینی بنائی گئی پیش قدمی اسرائیل کو اپنے لیے خطرہ محسوس ہو رہی ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاتز یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی فوج شام کے مختلف حصوں میں بھاری تزویراتی ہتھیاروں کو تباہ کر دے گی۔ ان میں زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل، فضائی دفاعی نظام، زمین سے زمین تک مار کرنے والے میزائل، کروز میزائل، طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل اور ساحلی میزائل نظام شامل ہے۔
اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے بیت المقدس میں صحافیوں کو بتایا کہ “اسرائیل تزویراتی اسلحے پر حملے کر رہا ہے مثلا باقی ماندہ کیمیائی ہتھیار یا دور تک مار کرنے والے راکٹ اور میزائل تا کہ یہ انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں نہ جائیں”۔