غزہ:اسرائیلی فوج نے وسطی غزہ کے علاقے نصیرات میں ٹینکوں کی مدد سے اتوار اور پیر کی درمیانی رات ایک بڑی کارروائی شروع کر کے کم از کم 30 فلسطینیوں کو قتل کر دیا ہے۔ اس بڑے زمینی حملے کا ہدف نصیرات پناہ گزین کیمپ تھا۔
ایک مقامی فلسطینی کے مطابق اسرائیلی ٹینکوں نے اس وقت گولہ باری شروع کر دی جب وہ ایک پناہ گزین کیمپ کے علاقے میں داخل ہوگئے۔ یہ پناہ گزین کیمپ غزہ میں قائم کیے گئے آٹھ تاریخی پناہ گزین کیمپوں میں سے ایک ہے۔
اسرائیلی ٹینکوں کی اس اچانک چڑھائی سے پناہ گزین کیمپ میں موجود خاندانوں میں خوف وہراس پھیل گیا۔ ایک اور فلسطینی زیک محمد کا اس کارروائی کے بارے میں کہنا تھا ٹینکوں کے علاقے میں آمد اچانک اور حیران کن تھی۔ علاقے کے لوگ اپنی جگہوں سے نکل نہ سکے اور ٹینکوں کی آمد اور گولہ باری کے دوران پھنس کر رہ گئے۔ البتہ کچھ کو بے بسی کے عالم میں علاقے سے ایک بار پھر نقل مکانی کرنا پڑی۔ یہ لوگ اسرائیلی فوج سے اپیل کر رہے تھے کہ انہیں اپنے علاقے سے نکلنے کا موقع دے۔ مگر ان کی سنی نہیں گئی۔
۔25 سالہ زیک محمد اس زیر حملہ آئے علاقے سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر مقیم ہے۔ اس نے بین الاقوامی خبر رساں ادارے ‘ رائٹرز ‘ کو موبائل فون پر ایک ‘ چیٹ ایپ ‘ کے ذریعے یہ واقعات بتائے۔
واضح رہے غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ 14 ماہ سے جاری ہے۔ یہ اسرائیل کی اب تک کی طویل ترین اور تباہ کن ترین جنگ ہے۔ جس کے لیے اسرائیل ایک طرف جنگ بندی پر آمادگی کا اظہار کرتا ہے اور دوسری جانب جنگی کارروائیوں میں شدت لا کر ہلاکتوں میں کی رفتار تیز کر دیتا ہے۔ اس سلسلے می اسرائیلی فوج نے ان دنوں غزہ کے شمالی اور وسطی حصوں کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں حماس پھر منظم ہو رہی ہے۔
اسرائیلی فوجی کی سٹریٹجی یہ ہے کہ ان علاقوں سے مختلف حیلوں بہانوں سے زیادہ سے زیادہ فلسطینیوں کو نکل باہر اور کسی بھی جنگ بندی کی صورت ان کی اپنے پرانے علاقوں میں واپسی کو ممکن نہ ہونے دے۔ اگرچہ جنگ بندی کے لیے کوششوں میں بھی پہلے کی طرح تواتر نہیں رہا ہے۔ بلکہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی نسل کشی ہی جاری ہے۔
ادھر غزہ کے کمال عدوان ہسپتال میں موجود طبی عملے کے ارکان کا کہنا ہے کہ اتوار اور پیر کی رات سے شروع ہونے والی کارروائی میں اسرائیلی فوج نے فضا سے بھی بمباری کی اور ٹینکوں سے بھی گولہ باری کی جاتی رہی۔ جس کے نتیجے میں 20 فلسطینی ان لگاتار حملوں میں قتل کیے گئے۔
علاوہ ازیں بیت لاھیہ کے علاقے میں بھی ایک واقعہ پیش آیا ہے ۔ جہاں اسرائیلی فوج نے نئی جنگی یلغار کا آغاز پانچ اکتوبر سے کر رکھا ہے۔ اس علاقے میں بھی اسرائیلی بمباری سے 4 فلسطینیوں کو قتل کیا گیا ہے۔ جبکہ باقی فلسطینیوں کو پیر کے روز غزہ شہر میں قتل کیا گیا۔
طبی عملے کے مطابق اسرائیلی ڈرون طیارے سے بمباری کر کے طبی شعبے کے تین ارکان کو قتل کیا گیا ہے۔ تاہم اسرائیلی فوج نے ان واقعات کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے ہفتہ کے روز اپنی کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا اس نے ہفتے کے روز اسلامی جہاد گروپ کے ایک کمانڈر محمد ابو شکیل کو قتل کیا ہے۔ اسلامی جہاد گروپ حماس کا اہم اتحادی گروپ ہے۔ یہ واقعہ غزہ شہر کا بتایا گیا ہے۔ جبکہ غزہ کے طبی عملے کے مطابق اس علاقے میں اسرائیلی فوج نے چھے فلسطینیوں کو قتل کیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے جبالیہ اور اس کے آس پاس کے تین ہسپتالوں کا کئی ہفتوں سے محاصرہ جاری رکھا ہوا ہے۔ تاہم ہسپتالوں کے طبی عملے نے خوراک، طبی امداد اور ایندھن کی سہولیات کی شدید کمی کے باوجود ہسپتالوں کو خالی کرنے یا مریضوں کو لاوارث چھوڑنے کے اسرائیلی احکامات ماننے سے انکار کر رکھا ہے۔
اسرائیلی فوج حماس پر غزہ کی شہری آبادی اور ہسپتالوں کو مزاحمتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا الزام عائد کرتی ہے۔ مگر حماس انکار کرتی ہے۔ فوج نے ایک ماہ قبل شمالی غزہ میں بیت لاھیہ، بیت حنون اور جبالیہ کیمپ میں ٹینک بھیجے تھے۔ اس بارے میں کہا گیا ہے کہ جب سے اس نے جبالیہ اور اس کے آس پاس سینکڑوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا ہے۔ حماس اور اسلامی جہاد کے مسلح ونگز نے کہا کہ ان کے جنگجوؤں نے گھات لگا کر حملے کیے، مارٹر فائر کیے اور ٹینک شکن راکٹ حملے کیے اور حالیہ ہفتوں میں کئی اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ پیر کے روز، اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے غزہ کی پٹی میں انسانی بنیادوں پر محفوظ زون کو بڑھا دیا ہے۔اس کے بقول اس سے مزید خیمے، پناہ گاہ کا سامان، خوراک، پانی اور طبی سامان داخل ہونے دیا جائے گا۔ تاہم حماس کو ختم کرنے اور تمام اغوا کاروں کی واپسی سمیت جنگ کے مقاصد کے حصول کے لیے کام جاری رکھا جائے گا۔
فلسطینی اور اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں کوئی محفوظ علاقہ نہیں ہے، جہاں 23 لاکھ سے زیادہ افراد رہتے ہیں لیکن غزہ کا زیادہ تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ جبکہ فلسطینی اس غزہ میں 43500 سے زائد قتل کیے جا چکے ہیں۔