قطر:غزہ کی پٹی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے تازہ ترین دور کی بات چیت کی ناکامی کے ساتھ ہی ایک سفارتی ذریعے نے انکشاف کیا ہے کہ قطر نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے اور یرغمالیوں کو رہا کرنے میں اہم ثالث کے کردار سے دستبرداری اختیار کرلیا ہے۔ قطر نے حماس کو پیغام بھی پہنچا دیا ہے کہ دوحہ میں اس کے دفتر نے اپنے مقصد کو پورا نہیں کیا ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرنے والے ذریعے نے مزید بتایا کہ قطریوں نے اسرائیلیوں اور حماس کو آگاہ کیا کہ جب تک معاہدے پر بات چیت سے انکار کیا جاتا رہے گا وہ ثالثی جاری نہیں رکھ سکیں گے۔ اور اسی نتیجے کے طور پر حماس کے سیاسی دفتر نے اپنا مقصد پورا نہیں کیا۔
دوسری طرف حماس کے ایک ذریعے نے ’’العربیہ‘‘ کو بتایا کہ انہیں دوحہ میں اپنے دفتر کی بندش کے بارے میں کسی فیصلے سے آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔ ہمارے قطری ثالث کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں اور وہ مذاکرات میں ہماری پوزیشن کو سمجھتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اب تک جس نے مذاکراتی عمل کو ناکام بنایا وہ حماس نہیں بلکہ اسرائیل ہے۔ حماس کے ذریعہ نے مزید کہا کہ ثالث مذاکرات کے دوران ہمارے موقف کی لچک کی تصدیق کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نیتن یاہو نے کیا ہے۔ ہم کسی دباؤ کے سامنے نہیں جھکیں گے اور ہمارا مقصد جنگ کو روکنا ہے۔
اس سے قبل ایک امریکی اہلکار نے انکشاف کیا تھا کہ امریکہ نے قطر کو مطلع کردیا ہے کہ دوحہ میں حماس کی موجودگی اب قابل قبول نہیں ہے۔ امریکی انتظامیہ کے سینیئر اہلکار نے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے یہ بات قطر پر اس وقت واضح کر دی تھی جب حماس نے ہفتہ قبل یرغمالیوں کی رہائی کی ایک اور تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ امریکی اہلکار نے کہا کہ دوحہ نے یہ درخواست تقریباً دس روز قبل حماس کے رہنماؤں کو پیش کی تھی۔
حماس کے تین عہدیداروں نے اس بات کی تردید کی کہ قطر نے تحریک کے رہنماؤں کو مطلع کیا ہے کہ ان کا ملک میں مزید خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔ امریکی اہلکار کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ غزہ اور لبنان میں جنگ روکنے کے لیے حتمی کوشش کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔
واضح رہے امریکہ، مصر اور قطر نے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے لیے مہینوں ثالثی کی ہے۔ تاہم بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ خاص طور پر چونکہ اسرائیلی فریق نے چند ہفتے قبل غزہ کی پٹی سے فوج کے انخلا سے انکار کر دیا تھا۔ اس کی وجہ سے ایک معاہدے تک پہنچنے میں رکاوٹ پیدا ہوگئی تھی۔ امریکی صدر بائیڈن کی پیش کردہ جنگ بندی کی تجویز کو حماس کی طرف سے قبول بھی کرلیا گیا تھا تاہم اسرائیل نے اس تجویز کو باضابطہ قبول کرنے سے گریز کیا۔