پیرس / نئی دہلی :دنیا میں کھیلوں کا سب سے بڑا کمبھ ,یعنی کہ اولمپکس گیمز , فرانس کی راجدھانی کو دنیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا ہے,جس کا آغاز 26 جولائی کو اور اختتام 11 اگست کو ہوگا ۔ اس بار 206ملکوں کے 10500 کھلاڑی 45 گیمز میں حصہ لیں گے اور اپنے اپنےجوہر دکھائیں گے ۔آپ کو بتا دیں کہ اس بار ہندوستان کا 117 رکنی دستہ اولمپکس گیمز میں شرکت کررہا ہے ۔ جن میں دو بار کی اولمپک میڈلسٹ پی وی سندھو اور 2020 ٹوکیو اولمپکس گولڈ میڈلسٹ نیرج چوپڑا جیسے کھلاڑی شامل ہیں۔ آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ پچھلی بار ہندوستان نے ٹوکیو اولمپکس میں کل 7 میڈلز جیتے تھے۔۔۔ جن میں سے صرف ایک گولڈ میڈل نیرج چوپڑا نے جیولین تھرو میں جیتا تھا۔
پیرس اولمپک گیمز کو تاریخ کے سب سے زیادہ ہائی رسک گیمز قرار دے دیا گی – جیو پولیٹیکل تناؤ کے ساتھ فرانس کا اندرونی تناؤ بھی ہائی رسک کی وجہ قرار دیا گیا ہے، اندرونی تناؤ اور جیو پولیٹیکل تناؤ کے کمبینیشن نے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔فرانس میں کچھ عرصہ سے سیاسی کشیدگی پائی جاتی ہے، فرانس میں کچھ عرصہ سے کسی نہ کسی ایشو پر شدید مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اس خطرے سے آگاہ کیا گیا ہے کہ ان گیمز کو منفی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، دھمکیوں اور خطرے کے پیش نظر سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے جا رہے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق 30 ہزار پولیس اہلکار تعینات ہوں گے، گیمز کے دوران تعداد 45 ہزار اہلکاروں تک جائے گی
پیرس اولمپکس میں حصہ لینے والے 117 ہندوستانی کھلاڑیوں میں سے 24 مسلح افواج کے جوان ہوں گے۔ ان 24 کھلاڑیوں میں 22 مرد ہیں جن میں اسٹار جیولن پھینکنے والے صوبیدار نیرج چوپڑا بھی شامل ہیں۔ دو خواتین کھلاڑی ہیں۔ اولمپکس میں پہلی بار خواتین ملٹری ایتھلیٹس حصہ لیں گی۔ ٹوکیو اولمپکس گولڈ میڈلسٹ صوبیدار نیرج چوپڑا ایک بار پھر پیرس اولمپکس میں شرکت کرکے گولڈ میڈل جیتنے کا دعویٰ کریں گے۔آرمی کے صوبیدار نیرج چوپڑا نے 2023 ایشین گیمز، ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ، 2024 ڈائمنڈ لیگ اور 2024 پاو نورمی گیمز میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔ 2022 کامن ویلتھ گیمز کی برونز کا میڈلجیتنے والی حولدار جیسمین لمبوریا اور 2023 ایشین ریسلنگ چیمپئن شپ کی کانسہ کا میڈلجیتنے والی سی پی او ریتیکا ہڈا پہلی بار اولمپک گیمز میں حصہ لینے والی خواتین سروس اہلکار ہیں۔ وہ باکسنگ اور ریسلنگ میں حصہ لیں گی۔ پیرس اولمپکس میں حاضر سروس اہلکاروں کی شرکت مسلح افواج کے کھیلوں کی عمدگی کی حوصلہ افزائی اور ایتھلیٹک ثقافت کو فروغ دینے کے عزم کی عکاسی کرتی ہے۔آرمی کے صوبیدار امیت پنگھل (باکسنگ)، سی پی او تجندرپال سنگھ تور (شاٹ پٹ)، صوبیدار اویناش مکند سیبلے (3000 میٹر اسٹیپلچیس)، سی پی او محمد انس یحییٰ، پی او (جی ڈبلیو) محمد اجمل، صوبیدار سنتوش کمار تملراسن اور جے ڈ بلیو او میزو چاکو کورین۔ 400میٹر مردوں کا ریلے، جے ڈبلیو او عبداللہ ابوبکر (ٹرپل جمپ)، صوبیدار تروندیپ رائے اور صوبیدار دھیرج بوما دیورا (تیر اندازی) اور نائب صوبیدار سندیپ سنگھ (شوٹنگ) بھی ان فوجی جوانوں میں شامل ہیں جو ملک کا سر فخر سے بلند کرنے کے مقابلے میں حصہ لیں گے۔
اس بار دہلی یونیورسٹی کے 9 طلباء بھی پیرس اولمپکس میں ہندوستان کی طرف سے جھنڈا لہرائیں گے۔ ان میں سے دو موجودہ طالب علم ہیں، جبکہ باقی سات سابق ڈی یو کے طالب علم ہیں۔ ان 9 میں سے 6 طالب علم شوٹنگ میں حصہ لے رہے ہیں۔ دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر۔ یوگیش سنگھ نے بتایا کہ ان 9 طلبہ میں سے 6 شوٹنگ، ایک ایتھلیٹکس اور ایک ٹیبل ٹینس میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ڈی یو کی ایک سابق طالبہ بھی شوٹنگ کوچ کے طور پر اولمپکس میں حصہ لینے جا رہی ہے۔ ان تمام کھلاڑیوں کو مبارکباد دیتے ہوئے انہوں نے امید ظاہر کی کہ کھلاڑی قابل ستائش کارکردگی کا مظاہرہ کر کے ملک کے لیے میڈلز جیتیں گے۔
وائس چانسلر نے کہا کہ دہلی یونیورسٹی کے چار طلباء نے 2020 کے ٹوکیو اولمپکس میں حصہ لیا تھا۔ اس بار کھلاڑیوں کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ ڈی یو کے اسپورٹس ڈائریکٹر ڈاکٹر انیل کمار کالکل نے بتایا کہ اس بار حصہ لینے والے 9 کھلاڑیوں میں سے 3 کھلاڑی منو بھاکر، اموج جیکب اور مانیکا بترا نے بھی 2020 کے ٹوکیو اولمپکس میں حصہ لیا ہے۔ اس بار اولمپکس فرانس کے دارالحکومت پیرس میں 26 جولائی سے 11 اگست تک منعقد ہو رہے ہیں۔شوٹنگ میں نصف سے زیادہ خواتین کھلاڑیوں کا تعلق ڈی یو سے ہے۔اولمپکس میں شوٹنگ کے مقابلے میں ہندوستان کے کل 21 کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں۔ ان میں سے 11 خواتین کھلاڑی ہیں اور ان 11 خواتین کھلاڑیوں میں سے 6 ڈی یو کی طالبات ہیں۔ ٹیبل ٹینس میں ہندوستانی ٹیم کے کل 8 کھلاڑیوں میں سے 4 خواتین کھلاڑی ہیں جن میں سے ایک کا تعلق ڈی یو سے ہے۔
اولمپکس گیمز میں شرکت ایک اعزاز ہے اور میڈل حاصل کرنا زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ ۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی فاتح کھلاڑیوں کو انعام کے شکل میں کوئی نقد رقم نہیں دیتی ہے، لیکن ان فاتح کھلاڑیوں کے ملکوں کی حکومتیں انہیں نقد انعامات سے نواز تی ہیں ۔ہندوستانی حکومت اولمپک گولڈ میڈل جیتنے والوں کو 75 لاکھ روپے، چاندی کا میڈلجیتنے والوں کو 50 لاکھ روپے اور برونز کا میڈلجیتنے والوں کو 10 لاکھ روپے بطور انعام دیتی ہے۔ جبکہ انڈین اولمپک ایسوسی ایشن الگ سے انہیں ایک کروڑ روپے بطور انعام دیتا ہے۔
پیرس اولمپکس میں کون سب سے زیادہ میڈلز جیتے گا اس حوالے سے ایک اسپورٹس گلوبل ڈیٹا کی پشین گوئی جاری کی ہے۔اسپورٹس گلوبل ڈیٹا کی پشین گوئی کے مطابق پیرس اولمپکس 2024 میں امریکہ سب سے زیادہ میڈلز جیتے گا جس میں 122 میڈلز کی تعداد ہوسکتی ہے جس میں 39 گولڈ 32 سلور اور 41 برانز میڈلز شامل ہوسکتے ہیں۔جبکہ اس کے علاوہ چین زیادہ گولڈ میڈلز جیت کر امریکہ کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے، چین کے 86 میڈلز جیتنے کی پیش گوئی کی گئی ہے جس میں 34 گولڈ 27 سلور اور 25 برانز شامل ہوسکتے ہیں۔ان دو ممالک کے علاوہ برطانیہ کے تیسرے میزبان فرانس کے چوتھے آسٹریلیا کے پانچویں نمبر کی پیش گوئی کی گئی ہے۔گلوبل ڈیٹا کی پشین گوئی کے مطابق جاپان، اٹلی، جرمنی اور نیدر لینڈز کی چھٹے ساتویں آٹھویں اور نویں نمبر پر پیش گوئی کی ہے۔جبکہ میزبان فرانس کے 27 گولڈ، 21 سلور اور 12 برانز میڈلز کی پیش گوئی ہے، فرانس کے گولڈ میڈلز ٹوکیو اولمپکس کے مقابلے میں تین گنا بڑھنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
پیرس اولمپکس گیمز میں ایک دلچسپ بات یہ ہوگی کہ اس میں کچھ ایسے ہندوستانی کھلاڑی ہیں جو ہندوستان کی نہیں بلکہ کسی اور ملک کی نمائندگی کررہے ہیں ۔ان میں ایک نام ہے ایتھلیٹ راجیو رام ۔و امریکہ کے ٹینس کھلاڑی ہیں۔ ان کے والدین کرناٹک سے امریکہ منتقل ہوگئے تھے۔
دوسرا نام ہے ویرونیکا شانتی پریرا ۔ جو سنگاپور کی سپرنٹ کوئین کے نام سے مشہور ہیں ۔ان کا اصل میں کیرالہ سے ہتعلق ہے ۔ اس کے دادا دادی ترواننت پورم کے قریبی علاقے ویٹوکاڈ سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن جب شانتی کے دادا سنگاپور میں ملازم تھے تو اسی وقت وہ سنگاپور منتقل ہوگئے۔
ایک اور نام ہے ٹیبل ٹینس کھلاڑی پرتھیکا کا ۔۔۔ جن کے والد کا تعلق پڈوچیری سے ہے۔ انہوں نے 2003 میں شادی کی اور پھر وہ پیرس منتقل ہوگئے۔ ایک سال بعد فرانس کے دارالحکومت میں پیدا ہونے والی پرتھیکا نے صرف سولہ سال کی عمر میں ٹوکیو میں اپنے پہلے اولمپک گیمز میں حصہ لیا۔
ایک ہیں امرویر بلبیر ۔۔۔ امر کے والد کا تعلق جالندھر ضلع کے پنجابی گاؤں سنگھوال سے ہیں۔ این آئی ایس پٹیالہ میں ٹریننگ مکمل کرنے اور پنجاب پولیس میں پوسٹ حاصل کرنے کے بعد بلبیر بہتر مواقع کی تلاش میں 1979 میں کینیڈا منتقل ہوگئے۔ جہاں انھوں نے آری مل فیکٹری میں کام کرنا شروع کیا اور 1985 میں نوجوانوں کے لیے سرے میں خالصہ ریسلنگ کلب کی بنیاد رکھی۔
ایک اور ہندوستانی نسل کی ہیں امریکی ٹیبل ٹینس کھلاڑی کنک جھا ۔۔۔ جھا کی ماں کرونا کا تعلق ممبئی سے ہے، جب کہ ان کے والد ارون کا تعلق کولکتہ سے ہے۔ دونوں آئی ٹی پروفیشنل ہیں۔ دو بار کی اولمپیئن کنک جھا پیرس اولمپکس میں اپنا پہلا میڈلجیتنے کی کوشش کریں گے۔جھا پانچ بار امریکی قومی چیمپئن اور پین امریکن چیمپئن ہیں۔انہوں نے ورلڈ چیمپئن شپ میں کوارٹر فائنل میں بھی جگہ بنانے میں کامیاب رہے تھے۔
حجاب ہے موضوع بحث
اولمپکس گیمز میں کھیلوں سے ہٹ کر جو موضوعات سرخیوں میں ہیں ان میں ایک ہے ۔۔ فرانس کی اپنے دستے پر حجاب پر پابندی ۔۔۔ اس کو ہم کچھ یوں بھی بیان کرسکتے ہیں کہ اولمپک گیمز کے دوران کسی بھی فرانسیسی کھلاڑی کو حجاب یا مذہبی علامات والی اشیاء پہننے کی اجازت نہیں ہوگی۔فرانس کا اپنا دعوی ہے کہ عوامی زندگی میں سیکولرازم کی سخت پالیسی لاگو ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی قسم کے مذہبی اظہار پر پابندی۔دراصل جب حجاب کی کنٹروورسی نے طول پکڑا تھا تو اس وقت انٹر نیشنل اولمپک کمیٹی نے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ اولمپک گیمز میں کھلاڑی صرف اپنے اپنے گیمزکی فیڈریشن کے قوانین کے پابند ہوتے ہیں۔ ۔ انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی کا کہنا ہے کہ اولمپک ولیج میں آئی او سی کے قوانین لاگو ہوتے ہیں لہٰذا حجاب یا کوئی اور مذہبی یا ثقافتی لباس پہننے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔حجاب پر پابندی کے خلاف ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ حجاب پہننے والی فرانسیسی خواتین کھلاڑیوں پر پابندی انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، یہ فیصلہ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کی کمزوری کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔اگر اولمپکس میں حجاب کی بات کریں تو ا مریکہ ابتہاج محمد اولمپک گیمز میں حجاب پہننے والی سب سے ہائی پروفائل ایتھلیٹ ہیں۔ انہوں نےبرازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں 2016 کے اولمپک گیمز میں حجاب پہن کر برونز میڈلز جیتا تھا۔فرانس میں حجاب سیاست کا موضوع رہا ،ملک کا قانون سیکولرازم کے اصولوں پر سختی سے عمل چاہتا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ مذہبی لباس کے مسئلے کو اس میں مرکزی حثیت حاصل ہے۔ فرانس کا اپنا دعوی ہے کہ ان قانون کا مقصد حکومت کو مذہبی معاملات میں غیر جانبدار رکھنا ہے۔یہی قانون سرکاری اسکولوں اور سرکاری ملازمین کے لیے مذہبی علامتیں پہننے سے منع کرتے ہیں جبکہ 2010 میں پورا چہرہ ڈھانپنے کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا ۔