غزہ:بین الاقوامی عدالت انصاف کے فلسطینی سرزمین پر قبضے اور قانون کے خلاف قائم کردہ یہودی بستیوں پر دیے گئے ‘ورڈکٹ ‘ کے بعد اسرائیل کے علاوہ امریکی تنقید کی زد میں بھی آگئی ہے۔ امریکی ترجمان دفتر خارجہ نے اپنے رد عمل میں بین الاقوامی قانون کی اسرائیل کی طرف سے خلاف ورزیوں کے بارے میں رائے تنازعہ حل کرنے کی کوششوں کے لیے پیچیدگی پیدا کر دے گی۔ ‘
امریکہ کے لیے بین الاقوامی عدالت انصاف کی اسرائیل کے بارے میں رائے کس قدر نا قابل قبول ہو سکتی ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے امریکہ نے 24 جولائی کو نیتن یاہو وزیر اعظم اسرائیل کو اس لیے کانگریس سے خطاب کی دعوت دے رکھی ہے ۔ اس دعوت دینے کی وجہ بھی درحقیقت بین الاقوامی فوجداری عدالت کو ‘ شٹ اپ کال ‘ دینا ہے۔
اس لیے جیسے ہی بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کریم خان کی طرف نیتن یاہو اور ان کے وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے جنگی جرائم کے سلسلے میں وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے پراسس کا عندیہ دیا تو امریکہ نے اگلے چند دنوں میں نیتن یاہو کو کانگریس سے خطاب کی دعوت دے دی۔
تاکہ نیتن یاہو کی حوصلہ اور ہمت افزائی کا بندوبست کرنے ساتھ ساتھ اسرائیل اور اس کی جنگی حکمت عملی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جائے اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کو منہ بند کرنے کے لیے اشارہ کیا جائے۔
اب بین الاقوامی عدالت نے اقوام متحدہ کی درخواست پر 19 جولائی ‘کو بین الاقوامی قانون کے تحت اسرائیلی قبضے اور ناجائز یہودی بستیوں کی تعمیر پردیے گئے ‘ورڈکٹ’ کو بھی امریکہ نے پہلے مرحلے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کہ عدالت انصاف کی وجہ سے تنازعہ طے کرنے کے لیے جاری کوششیں پیچیدگیوں کا شکار ہو جائیں گی۔
ترجمان نے مزید کہا ہے اسرائیلی حکومت کا پروگرام یہودی بستیوں کی حمایت کے لیے بین الاقوامی قانون کے ساتھ اور امن کے لیے رکاوٹ بنتا ہے۔ لیکن ہمیں اس پر بھی تشویش ہے کہ بین الاقوامی عدالت انصاف کی رائے ان کوششوں کو پیچیدہ کر دے گی جوتصادم کو ختم کرنے کے لیے ہیں۔ حالانکہ ضرورت ہے کہ فوری بنیادوں پر پائیدار امن کا حصول ممکن بنایا جائے۔ دونوں ریاستیں اسرائیل اور فلسطین ساتھ ساتھ رہ سکیں۔
امریکی ترجمان نے بین الاقوامی عدالت انصاف کے حکم کے بارے میں کہا ‘ آئی سی جے کا یہ کہنا ہے کہ اسرائیل کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں سےفوری انخلا کرنا چاہیے اس فریم ورک سے مطابقت نہیں رکھتا جو اس تصادم کو ختم کر کے لیے امریکہ کے ذریعے جاری ہے۔’
گویا عدالت انصاف کا حکم واقعاتی اور قانونی اعتبار سے درست ہونے کے باوجود اس لیے قبول نہیں کہ یہ اس طریقہ کارکے تابع نہیں دیا گیا جو امریکہ نے اسرائیل کے لیے اختیار کر رکھا ہے۔