دبئی :اسرائیلی وزیر اعظم کے اوپر حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے لیے سیاسی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اسی دوران امریکہ میں سابق صدر ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کے بعد اسی طرح کے منظر نامہ نیتن یاھو کے ساتھ پیش آنے کا خطرہ اسرائیلی حلقوں میں پیش کیا گیا ہے۔
سابق امریکی صدر پر قاتلانہ حملے کی ناکام کوشش نے نیتن یاہو کے لیے بھی ایسے ہی انجام کا خدشہ پیدا کر دیا۔ متعدد اسرائیلی وزرا نے وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف غصے کا موازنہ ٹرمپ کے خلاف دھمکیوں سے کیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل میں بڑھتی ہوئی بے چینی کے باعث نیتن یاہو کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو سکتا ہے۔
اخبار ’’ ٹائمز آف اسرائیل‘‘ کے مطابق اسرائیلی کابینہ کے سکریٹری یوسی فوچس نے اتوار کو یروشلم میں کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس کے دوران حکومتی ناقدین کی جانب سے نیتن یاہو کے خلاف اشتعال انگیز نعروں کی ویڈیو کلپس دکھائے۔ ویڈیو میں غزہ کی پٹی میں یرغمال بنائے گئے بیٹے کی بیوی سمجھی جانے والی ایک خاتون کی آواز سنائی دے رہی ہے ’’ہم پھانسی کے ساتھ نیتن یاہو کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
خاتون نے وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر قیدی واپس نہ آئے تو ہم نیتن یاھو کے لیے پھانسی کے پھندے کے منتظر ہیں۔ دیگر نوجوان ویڈیوز میں نیتن یاہو کو غدار، شیطان اور عوام دشمن کہ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ کچھ نے نیتن یاھو کے خلاف تشدد کا استعمال کرنے کی دھمکی بھی دی۔
یہ پیش رفت نیتن یاہو کے خلاف غصے میں حالیہ اضافے کی روشنی میں سامنے آئی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں ایسی دھمکیاں “وزیراعظم کے قتل” کا باعث بن سکتی ہیں۔
نیتن یاہو پر غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماس کے ساتھ معاہدہ کرنے کا شدید اندرونی دباؤ ہے۔ دوسری طرف دائیں بازو کے وزرا دھمکی دیتے ہیں کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو وہ ان کی حکومت سے دستبردار ہو جائیں گے۔ اس دستبرداری کا مطلب حکومت کا خاتمہ ہے۔ حماس کے زیر حراست یرغمالیوں کا معاملہ اس امید کے درمیان زیر التوا ہے کہ جاری مذاکرات سے یہ معاملہ حل ہو جائے گا۔