نئی دہلی:ایک طویل مگر منفرد تحقیق سےمعلوم ہوا ہے کہ جن افراد کو سال میں کم از کم ایک بار مائگرین کا اٹیک ہوتا ہے، ان میں آنتوں اور معدے سمیت نظام ہاضمہ کی دیگر بیماریوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
ماضی میں کی جانے والی متعدد تحقیقات میں یہ بتایا جاچکا ہے کہ مائگرین سے فالج، بیلز پالسی، مرگی، سلیپ پیرالائز، امراض قلب اور ڈپریشن جیسی بیماریاں بھی ہوسکتی ہیں۔
اب نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مائگرین کے درد میں مبتلا افراد میں آنتوں، معدے، جگر اور پیٹ کی دیگر بیماریاں بڑھ سکتی ہیں۔
طبی جریدے نیچر میں شائع تحقیق کے مطابق جنوبی کوریائی ماہرین نے ایک کروڑ افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا، جن میں سے انہوں نے مائگرین کے شکار افراد کے ڈیٹا کو ان میں ہونے والی دیگر بیماریوں سے جوڑ کر اس کا جائزہ لیا۔
ماہرین نے پایا کہ جن افراد کو مائگرین تھا، ان میں سے 3 فیصد افراد ایسے تھے، جنہیں آنتوں اور معدے کی بیماریوں سمیت نظام ہاضمہ کی دیگر طبی پیچیدگیاں تھیں۔
ماہرین نے دیکھا کہ جن افراد کو مائگرین کی شکایت نہیں تھی، ان میں نظام ہاضمہ کی کوئی پیچیدگی نہیں تھیں، ان میں السر، آنتوں، معدے اور جگر کی کوئی خرابی نوٹ نہیں کی گئی۔
مائگرین جس کو عام الفاظ میں آدھے سر کا درد بھی کہا جاتا ہے (ضروری نہیں کہ یہ درد فقط آدھے سر میں ہی ہو) عام طور پر وقفے وقفے سے ہونے والے سر درد کو بھی مائگرین کہتے ہیں۔ مائگرین میں سر کے درد کے ساتھ ساتھ دوسری علامات مثلاً متلی، قے اور وقتی طور پر بینائی کا متاثر ہونا یا تیز دھوپ، تیز روشنی، تیز آواز، کسی خاص خوشبو یا بدبو وغیرہ سے الجھن شامل ہے جوکہ آپ کی معمول کی زندگی کو متاثر بلکہ بےکار کرسکتی ہیں۔
دردِ شقیقہ عام طور پر خاندانی (جینیاتی) ہوتا ہے۔ یعنی ایک ہی خاندان کے مختلف افراد اس مرض میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ اس بنا پر یہ موروثی بیماری بھی ہے۔ اگر والدین میں سے کسی ایک کو بھی مائگرین ہے تو بچے میں بھی مائگرین ہونے کا امکان 50 فیصد ہوتا ہے اور والدین میں دونوں کو مائگرین ہو تو بچے کے مائیگرین کا شکار ہونے کا امکان کم و بیش 75 فیصد ہوتا ہے۔