واشنگٹن:دو امریکی حکام کے ساتھ ساتھ ایک موجودہ اور سابق اسرائیلی اہلکاروں نے امریکی ویب سائٹ ایکسیس کو بتایا کہ امریکی اور اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیاں ایرانی سائنس دانوں کے کمپیوٹر ماڈلنگ کے بارے میں نئی معلومات کی تلاش کر رہی ہیں جو جوہری ہتھیاروں کی تحقیق اور اسے تیار کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں۔
ذرائع کے مطابق ماڈلنگ کا مقصد تاحال معلوم نہیں ہو سکا۔ کچھ امریکی اور اسرائیلی حکام نے کہا کہ یہ انٹیلی جنس ایران کے جوہری ہتھیاروں کے عزائم کے بارے میں ایک تشویشناک اشارہ ہے، لیکن دونوں اطراف کے دیگر حکام نے کہا کہ یہ محض ایک “جھٹکا” ہے جو ایران کی ہتھیاروں کی پالیسی اور حکمت عملی میں تبدیلی کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔
سینئر امریکی اور اسرائیلی حکام جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں ملاقات کریں گےجہاں امریکی اسرائیلی مشاورتی گروپ ایرانی جوہری پروگرام کی صورتحال اور دیگر امور پر بات چیت کرے گا۔ مارچ 2023ء کے بعد ایرانی جوہری پروگرام پر امریکہ اور اسرائیل کے درمیان یہ پہلی اعلیٰ سطحی اجلاس ہوگا جس میں گہرائی سے بات چیت ہوگی۔
ایک اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے حوالے سے انٹیلی جنس کی ناکامی کے بعد اسرائیلی انٹیلی جنس کمیونٹی جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے ممکنہ ایرانی اقدامات کے بارے میں کسی بھی چھوٹی بڑی معلومات کا زیادہ سنجیدگی سے جائزہ لے رہی ہے۔
امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی نے 2007ء میں اندازہ لگایا کہ ایران کا 2003 سے کوئی فعال فوجی جوہری پروگرام نہیں ہے۔ امریکی حکام نےایکسیوس کو بتایا کہ یہ اندازہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔
ایک امریکی اور اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ دونوں ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس ایسا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے فوجی جوہری پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا ہو۔ ایک اور امریکی اہلکار نے کہا کہ “ہمارے اس جائزے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے کہ ایران اس وقت جوہری ہتھیاروں کی ترقی کی وہ بڑی سرگرمیاں نہیں کر رہا ہے جو قابل آزمائش نیوکلیئر ڈیوائس تیار کرنے کے لیے ضروری ہے”۔
گذشتہ سال مارچ میں اسرائیلی اخبار’یدیعوت احرونوت‘ نے رپورٹ کیا تھا کہ ایران جوہری وار ہیڈ بنانے کے لیے درکار کچھ اجزاء جیسے کہ مائیکرو ڈیٹونیٹر حاصل کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔
فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز کے ’سی ای او‘ مارک ڈوبووٹز نے کہا کہ “اگر ایران اب ابتدائی اقدامات کر رہا ہے جس سے جوہری وار ہیڈ بنانے میں مدد ملے گی تو یہ امریکی انٹیلی جنس کے اس دیرینہ اتفاق رائے سے متصادم ہے کہ اس نے 2003 میں اپنے ہتھیاروں کا کام ختم کر دیا تھا”۔
ایرانی جوہری آرکائیو سے ملنے والی دستاویزات جنہیں اسرائیلی موساد نے 2018 میں چوری کر لیا تھا سے پتا چلتا ہے کہ ایرانی جوہری سائنسدان 2003 سے پہلے جوہری دھماکے کی ماڈلنگ کر رہے تھے۔
امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کے ایک حصے کے طور پر ایران نے ایسی سرگرمیوں میں ملوث نہ ہونے کا عہد کیا جو جوہری ہتھیاروں کے ڈیزائن اور ترقی کا حصہ ہیں۔ان میں جوہری دھماکہ خیز آلات کی نقل کے لیے کمپیوٹر ماڈلز کا استعمال بھی شامل ہے۔
مئی کے آخر میں جاری ہونے والی بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران کے پاس تقریباً 142 کلوگرام 60 فیصد افزودہ یورینیم موجود ہے، جو فروری میں پچھلی رپورٹ کے مقابلے میں 20 کلو گرام سے زیادہ ہے۔
امریکی اور اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے جائزوں کے مطابق ایران کو یورینیم کی اس مقدار کو 90 فیصد تک افزودہ کرنے کے لیے صرف چند ہفتے درکار ہوں گے جو کہ جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار سطح ہے۔
ایران کو ایک جوہری بم بنانے کے لیے تقریباً 42 کلوگرام 90 فیصد افزودہ یورینیم کی ضرورت ہوگی۔
نئی انٹیلی جنس ان مسائل میں سے ایک ہو گی جن پر جمعرات کو امریکہ اسرائیل اسٹریٹجک فورم ایران پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ ایک امریکی اہلکار نے کہا کہ اس نئی انٹیلی جنس کے بارے میں کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا ہے لیکن اس سے ایسے سوالات اٹھتے ہیں جن پر امریکہ اور اسرائیل کے درمیان بات چیت کی ضرورت ہے۔
امریکی فریق کی سربراہی وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کریں گے اور اسرائیلی فریق کی سربراہی اسٹریٹجک امور کے وزیر رون ڈرمر اور اسرائیلی قومی سلامتی کے مشیر زاچی ہانیگبی کریں گے۔ یہ ملاقات چند ہفتے قبل سلیوان کے حالیہ دورہ اسرائیل کے بعد ہو رہی ہے۔
اسرائیل میں اپنی ملاقاتوں کے دوران نیتن یاہو اور ان کے معاونین نے ایرانی جوہری پروگرام کی حیثیت کے بارے میں گہرائی سے بات چیت کی درخواست کی۔ ایک امریکی اہلکار نے کہا کہ “امریکہ اور اسرائیل دونوں کا خیال ہے کہ اس معاملے پر بات کرنے، ایران کے اقدامات کی تشریح کرنے اور کیا کرنا ہے اس پر ہم آہنگی پیدا کرنے کا وقت آگیا ہے”۔
حالیہ مہینوں میں امریکہ اور ایران نے عمان کی ثالثی میں بالواسطہ بات چیت کی ہے تاکہ ایرانی جوہری پروگرام پر عارضی پابندیاں عائد کرنے کے بارے میں غیر رسمی مفاہمت تک پہنچنے کی کوشش کی جا سکے۔