تہران:عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کی دو خفیہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ ایران یورینیم کی افزودگی اس سطح کے قرب تک پہنچ گیا ہے جو ہتھیار بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ یہ بات اس وقت سامنے آئی ہے جب اقوام متحدہ کی ایجنسی بات چیت کے ذریعہ تعاون کو بہتر بنانا چاہتی ہے۔
ایجنسی کی سہ ماہی رپورٹوں میں سے ایک میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران 4 مارچ 2023 کو جاری کردہ مشترکہ بیان پر عمل درآمد کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ اس بیان میں ایران میں نگرانی کے کاموں میں تعاون فراہم کرنے اور ایجنسی کی صلاحیت کو بہتر بنانے کی بات کی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل نے نئی ایرانی حکومت کو اپنی کال کی تجدید کی اور مئی 2024 کی چھ اور سات تاریخ کو شروع ہونے والے اعلیٰ سطح کے مذاکرات اور اس کے بعد تکنیکی بات چیت جاری رکھنے کے لیے اپنی تیاری سے بھی آگاہ کیا۔
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی ایک غیر مطبوعہ رپورٹ کے مطابق ایران نے حالیہ مہینوں میں افزودہ یورینیم کے اپنے ذخیرے میں اضافہ کیا ہے اور اپنے جوہری پروگرام کو تیز کر دیا ہے۔
ایرانی سٹاک 11 مئی کو 6201.3 کلوگرام تک پہنچ گیا جو فروری میں 5525.5 کلوگرام تھا۔ یہ 2015 میں طے پانے والے بین الاقوامی معاہدے کے تحت دی گئی اجازت سے 30 گنا زیادہ ذخیرہ ہے۔ تہران ایٹمی بم رکھنے کی کوشش سے انکار کرتا ہے۔
گزشتہ ہفتے ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ہلاکت نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ دو سفارت کاروں نے بتایا کہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ ایران کے تعاون کو بہتر بنانے کے لیے ہونے والی بات چیت کے حوالے سے تہران نے اس ہفتے ایجنسی کو بتایا ہے کہ وہ 28 جون کو رئیسی کے جانشین کے انتخاب تک ایجنسی کے ساتھ بات چیت نہیں کرے گا۔
ایک اور سینئر یورپی سفارت کار نے کہا کہ قرارداد تیار کر لی گئی ہے۔ ای تھری ملکوں نے ایک مسودہ تیار کیا ہے لیکن اسے کونسل کے اراکین تک نہیں پہنچایا ہے۔ ہمارا تجزیہ ہے کہ رئیسی کی موت سے کچھ نہیں بدلا ہے۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی ایران کے بارے میں اگلی سہ ماہی رپورٹیں اگلے ہفتے کے اوائل میں پیش کی جائیں گی۔
ایران کی جوہری سرگرمیوں کے بارے میں خدشات زیادہ ہیں، کیونکہ ایران یورینیم کو 60 فیصد خالصتا تک افزودہ کر رہا ہے جو جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہونے والے 90 فیصد کے قریب ہے۔ ایران کے پاس اس سطح کے لیے کافی افزودہ مواد موجود ہے۔
مغربی طاقتوں کا کہنا ہے کہ اس سطح تک افزودگی کا کوئی شہری استعمال نہیں ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی دوسرے ملک نے جوہری ہتھیار بنائے بغیر اس سطح تک افزودگی نہیں کی ہے۔ تاہم ایران کہتا ہے کہ اس کے جوہری پروگرام کے مقاصد مکمل طور پر پرامن ہیں۔