دبئی:دو اسرائیلی حکام نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے گزشتہ ہفتے اسرائیل کو گولہ بارود کی ترسیل معطل کر دی تھی۔ حکام نے ’’ایکسیوس‘‘ کو بتایا کہ اس قدم نے اسرائیلی حکومت کے اندر شدید تشویش پیدا کردی ہے اور حکام اس کی وجہ کو سمجھنے کی کوشش پر مجبور ہوئے ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ نے فروری 2024 میں اسرائیل سے اس بات کی گارنٹی فراہم کرنے کو کہا تھا کہ غزہ میں بین الاقوامی قانون کے مطابق امریکی ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں۔ تل ابیب نے مارچ میں ضمانتیں فراہم کی تھیں۔ اس ضمن میں وائٹ ہاؤس نے بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ پینٹاگون، امریکی محکمہ خارجہ اور اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے بھی تبصرہ کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا ہے۔
یاد رہے یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ نے 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد سے اسرائیلی فوج کے لیے ہتھیاروں کی کھیپ روکی ہے۔ ویب سائٹ ’’ ایکسیوس‘‘ نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کو اس بات پر گہری تشویش ہے کہ اسرائیل غزہ کے انتہائی جنوبی شہر رفح پر حملہ کرے گا۔ رفح میں غزہ کی پٹی کے دیگر علاقوں سے آکر 11 لاکھ کے قریب افراد نے پناہ لے رکھی ہے۔ دریں اثنا اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اتوار کو ایک بیان میں امریکی انتظامیہ کے ساتھ تناؤ کا اشارہ دیا۔
منگل کو نیتن یاہو نے کہا تھا کہ حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ ہو یا نہ ہو اسرائیلی فوج ہر حال میں رفح پر زمینی حملہ کرے گی۔ یہ خیال کہ ہم جنگ کو اس کے تمام اہداف حاصل کرنے سے پہلے روک دیں گے ناقابل تصور ہے۔ یاد رہے تل ابیب کے اہم اتحادی امریکہ کی قیادت میں بہت سے بین الاقوامی اور امدادی اداروں کے ساتھ ساتھ بیشتر مغربی ملکوں نے رفح پر ممکنہ حملے کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے بارہا کہا ہے کہ رفح کے لوگوں کے لیے پناہ لینے کے لیے پوری پٹی میں کوئی بھی محفوظ جگہ موجود نہیں ہے۔