نئی دہلی:عدالت نے دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ انہیں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے اپنے ڈاکٹروں سے مشورہ کرنے کی اجازت دی جائے۔ وزیراعلیٰ نے انسولین فراہم کرنے کی بھی اپیل کی تھی۔ دہلی کی راؤز ایونیو کورٹ نے کہا کہ ایمس کا پینل فیصلہ کرے گا کہ اسے انسولین دی جائے یا نہیں۔ سی ایم کیجریوال کی صحت کی جانچ کے لیے ایمس کے ڈائریکٹر کی قیادت میں ایک پینل تشکیل دیا گیا تھا۔
سی ایم کیجریوال دہلی ایکسائز پالیسی کیس میں عدالتی حراست میں تہاڑ جیل میں بند ہیں۔ انہیں 21 مارچ کو پوچھ گچھ کے بعد ای ڈی نے گرفتار کیا تھا۔ سی ایم کیجریوال نے اپنی درخواست میں مطالبہ کیا تھا کہ انہیں اپنی اہلیہ کی موجودگی میں ڈاکٹر سے باقاعدگی سے 15 منٹ تک ملنے دیا جائے۔
دوسری طرف دہلی ہائی کورٹ نے پیر کے روز سی ایم کیجریوال کو 15 مئی کے لیے جاری سمن کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کی فہرست دی ہے۔ جسٹس سریش کمار کیت کی بنچ نے عام آدمی پارٹی (اے اے پی) لیڈر کو ایجنسی کی طرف سے پیش کردہ جواب پر اپنا جواب داخل کرنے کا وقت دیا ہے۔
دریں اثناآپ نے پیر کو کہا کہ وزیر اعلیٰ نے تہاڑ جیل سپرنٹنڈنٹ کو ایک خط لکھا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ روزانہ انسولین کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ ان کی شوگر لیول بڑھ رہی ہے۔ سی ایم کیجریوال نے جیل حکام کے اس دعوے کو بھی مسترد کر دیا کہ ایمس کے ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ وزیر اعلی کی صحت کے بارے میں فکر کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
جیل سپرنٹنڈنٹ کو لکھے خط میں سی ایم کیجریوال نے الزام لگایا کہ جیل انتظامیہ سیاسی دباؤ میں جھوٹ بول رہی ہے۔ تہاڑ انتظامیہ نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے 20 اپریل کو ایمس کے سینئر ماہرین کے ساتھ کجریوال کی ویڈیو کانفرنس کا اہتمام کیا تھا، جس کے دوران نہ تو سی ایم کیجریوال نے انسولین کا مسئلہ اٹھایا اور نہ ہی ڈاکٹروں نے ایسا کوئی مشورہ دیا۔
عام آدمی پارٹی نے تہاڑ انتظامیہ پر الزام لگایا ہے کہ وہ سی ایم کیجریوال کو انسولین نہیں دے رہی ہے جو ذیابیطس میں مبتلا ہیں۔ پارٹی نے ان پر قتل کی سازش کا الزام بھی لگایا۔
خط میں سی ایم کیجریوال نے کہا ہے کہ تہاڑ انتظامیہ کے بیانات غلط ہیں اور وہ روزانہ انسولین کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا شوگر لیول دن میں تین بار بڑھتا ہے اور 250 سے 320 کے درمیان رہتا ہے۔سی ایم کیجریوال نے خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایمس کے ڈاکٹروں نے یہ نہیں کہا تھا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔