چنڈی گڑھ:لوک سبھا انتخابات سے عین قبل بی جے پی نے ہریانہ میں وزیر اعلیٰ کا چہرہ بدل دیا ہے۔ اقتدار کی کمان منوہر لال کھٹر کے ہاتھ سے چھین کر نائب سنگھ سینی کو سونپ دی گئی ہے۔ نائب سنگھ سینی نے منگل کی شام پانچ بجے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لیا۔ وزیراعلیٰ کے ساتھ کنورپال گرجر، مول چند شرما، چودھری رنجیت سنگھ چوٹالہ، جے پرکاش دلال اور بنواری لال نے وزیروں کی حیثیت سے حلف لیا۔ یہ پانچ وزراء کھٹر کی کابینہ کا حصہ تھے۔ کھٹر حکومت میں نمبر دو کے عہدے پر فائز رہنے والے انل وج نے حلف برداری کی تقریب میں بھی شرکت نہیں کی حالانکہ انہیں نائب وزیر اعلیٰ بنانے کی بات چل رہی تھی۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انل وج ناراض کیوں ہیں اور ہریانہ کی سیاست میں وہ بی جے پی کے لیے کتنے اہم ہیں۔
بی جے پی کی اعلیٰ قیادت نے ہریانہ میں قیادت کی تبدیلی کے لیے منوہر لال کھٹر کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ کھٹر اور ان کے کابینہ کے ساتھیوں نے منگل کو اپنا اجتماعی استعفیٰ دے دیا، جس کے بعد ہریانہ میں نئی حکومت بنانے کی پہل شروع ہوئی۔ بی جے پی نے ترون چغ اور ارجن منڈا کو مبصر کے طور پر چنڈی گڑھ بھیجا، جس کے بعد پارٹی لیجسلیچر پارٹی میٹنگ میں وزیر اعلیٰ کے لیے نائب سنگھ سینی کا نام تجویز کیا گیا۔ سینی کے نام کی منظوری ملتے ہی انل وج نے کھل کر احتجاج کیا اور غصے میں چلے گئے۔ یہ معاملہ اس قدر گھمبیر تھا کہ حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے رکنے کے بجائے انبالہ جانا ہی بہتر سمجھا۔
انیل وج ناراض کیوں ہیں؟
کیا انل وج کی ناراضگی کے پیچھے وزیر اعلیٰ کی کرسی ہے؟ کہا جا رہا ہے کہ جب لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات سے قبل پارٹی کی حکمت عملی کے تحت منوہر لال کھٹر نے اپنی کرسی چھوڑی تو انل وج کو امید تھی کہ پارٹی سینئرٹی کی بنیاد پر ان کے نام پر غور کرے گی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ کھٹر کی طرح وج بھی پنجابی برادری سے آتے ہیں۔ وہ سماجی مساوات اور اپنی سنیئرٹی کی بنیاد پر وزیر اعلیٰ بننے کی امید کر رہے تھے، لیکن پارٹی نے او بی سی برادری سے تعلق رکھنے والے نائب سنگھ سینی کے نام کو منظوری دے دی۔ اگلے ہی لمحے انل وج لیجسلیچر پارٹی میٹنگ چھوڑ کر چلے گئے۔