دبئی:فلسطینی تحریک حماس کے پولٹ بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے کہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں جنگ کے دوران بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی ان کے علاقوں میں واپسی کا کوئی وعدہ نہیں کیا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ گرفتار افراد کو بازیاب کر کے جنگ دوبارہ شروع کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات ہمارے لیے ناقابل قبول ہے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ حماس نے مذاکرات کے دوران کچھ اصول قائم کیے، جس میں غزہ میں جنگ کو ختم کرنا اور اگلے دن کے منصوبے کو روکنا شامل ہے۔ اسرائیل مذاکرات میں اس بات پر زور دیتا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والے محور پر رہے گا۔
اس کے علاوہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی قائم کرنے کے لیے ثالثی کی کوششیں دوبارہ شروع ہونے کی توقع ہے کیونکہ مصری دارالحکومت قاہرہ آنے والے گھنٹوں میں فریقین کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کرنے والا ہے جس کا مقصد حماس اور اسرائیل کے درمیان عارضی جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے پر سمجھوتہ کرنا ہے۔
کچھ ماہرین نے رمضان المبارک کی آمد سے قبل آخری گھنٹوں میں جنگ بندی تک پہنچنے کے امکان کو “مشکل قرار دیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ ناممکن نہیں۔
ماہرین نے زور دیا کہ مذاکراتی عمل “تمام رکاوٹوں کے باوجود جاری رہے گا اور ہر فریق اپنے موقف پر قائم رہا اور کسی قسم کی رعایت دینے سے انکار کیا تو بات آگے نہیں بڑھے گی”۔
مصری، قطری اور امریکی ثالثوں کی جانب سے رمضان کے مہینے میں غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کی خواہش کے باوجود مذاکرات کا آخری دور جس میں اسرائیل غیر حاضر تھا دونوں ملکوں کے درمیان کسی معاہدے کی حتمی شکل تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
اسرائیل اور حماس ایک ایسے معاہدے پر نہ پہنچنے میں ناکامی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کر رہے ہیں۔ یہ تجویز دی گئی تھی کہ حماس کو 40 دن کی جنگ بندی کے بدلے اپنے زیر حراست کچھ قیدیوں کو رہا کرنا چاہیے اور ان کے بدلے میں اسرائیل بھی کچھ فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ آخری گھنٹوں میں مصری-امریکی رابطوں میں غزہ میں جنگ بندی تک پہنچنے کے لیے ثالثی کی کوششوں پر توجہ مرکوز کی گئی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اپنے مصری ہم منصب سامح شکری سے بات چیت کی۔
انہوں نے “ایکس” پلیٹ فارم پر مزید کہا کہ بات چیت میں قیدیوں کی رہائی اور پٹی میں انسانی امداد میں اضافہ کرنے کی کوششیں بھی شامل تھیں۔