Tuesday, August 26, 2025
Homeہندوستانشہریت کی جانچ کا معاملہ وزارت داخلہ کا ہے، الیکشن کمیشن کا...

شہریت کی جانچ کا معاملہ وزارت داخلہ کا ہے، الیکشن کمیشن کا نہیں: سپریم کورٹ

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بہار میں ووٹر فہرست کے خصوصی گہرے تجزیے(اسپیشل انٹینسیو ریویزن(ایس آئی آر) کے فیصلے پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن کو اس عمل کے ذریعے ووٹروں کی شہریت کی جانچ کرنی تھی، تو اسے یہ کام پہلے ہی مکمل کرنا چاہیے تھا۔ عدالت نے اس تاخیر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔
جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس جوی مالیا باگچی کی دو رکنی بینچ نے واضح کیا کہ اگر مقصد غیر شہریوں کو ووٹر فہرست سے نکالنا تھا تو یہ عمل انتخابات سے کافی پہلے مکمل ہونا چاہیے تھا، نہ کہ اس قدر قریبی وقت میں جب ریاست میں انتخابات سر پر ہوں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ شہریت کی جانچ کا معاملہ وزارت داخلہ کے دائرہ کار میں آتا ہے، نہ کہ الیکشن کمیشن کے۔
اس معاملے پر سپریم کورٹ میں دس سے زائد عرضیاں دائر کی گئی ہیں، جن میں نمایاں عرضی غیر سرکاری تنظیم ’’ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز‘‘(اے ڈی آر) کی ہے۔ ان کے ساتھ کئی سیاسی رہنما بھی فریق بنے ہیں، جن میں راجد کے منوج جھا، ترنمول کانگریس کی محوا موئترا، کانگریس کے کے سی وینوگوپال، این سی پی کی سپریا سولے، سی پی آئی کے ڈی راجہ، سماج وادی پارٹی کے ہرندر سنگھ ملک، شیو سینا (ادھو گروپ) کے اروند ساونت، جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے سرفراز احمد اور سی پی آئی (مالے) کے دیپنکر بھٹاچاریہ شامل ہیں۔
سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کی نمائندگی سینئر وکیل راکیش دویویدی، کے کے وینوگوپال اور منندر سنگھ نے کی۔ کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 326 کے تحت ووٹر بننے کے لیے شہری ہونا ضروری ہے، اور اسی لیے شہریت کی تصدیق کی جا رہی ہے۔ تاہم عدالت نے اس پر سوال اٹھایا کہ اگر شہریت کی تصدیق کا عمل اتنا ہی ضروری تھا تو یہ کام قبل از وقت کیوں نہیں کیا گیا؟
عدالت نے واضح کیا کہ مسئلہ صرف تجزیے کے عمل سے نہیں بلکہ اس کے لیے منتخب کیے گئے وقت سے ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ یہ عمل نومبر میں ہونے والے ریاستی انتخابات کے عین قریب کیوں کیا جا رہا ہے، حالانکہ یہ کام انتخابات سے غیر متعلقہ ہونا چاہیے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے وضاحت دی گئی کہ کسی بھی شخص کو سنے بغیر اسے ووٹر لسٹ سے خارج نہیں کیا جائے گا اور تمام ضابطوں کی پابندی کی جائے گی۔
کمیشن کا کہنا تھا کہ وہ صرف آئینی فرائض انجام دے رہا ہے اور کسی کو خارج کرنے کا نہ ارادہ ہے، نہ اختیار، جب تک کہ قانون اس کی اجازت نہ دے۔ وکیل گوپال شنکرنارائنن، جو ایک عرضی گزار کی طرف سے پیش ہوئے، نے کہا کہ مکمل ووٹر فہرست کی ازسرنو تیاری کے بجائے، مختصر تجزیے کی پالیسی اپنائی جا سکتی تھی جس میں معمولی ترامیم ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گہرے تجزیے کی صورت میں تقریباً 7.9 کروڑ ووٹروں کو مکمل جانچ کے مراحل سے گزرنا پڑے گا، جو کہ ایک پیچیدہ عمل ہے۔ جسٹس دھولیا نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے کی جانے والی کارروائی آئینی حدود کے اندر ہے اور اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ ووٹر فہرست کی اصلاح کرے، خاص طور پر اگر اس کے پاس پچھلے تجزیوں کا ڈیٹا موجود ہو، جیسا کہ 2003 میں کیا گیا تھا۔
سماعت کے دوران عدالت نے کمیشن سے تین اہم نکات پر جواب طلب کیا، تجزیے کے لیے منتخب کیا گیا وقت ، شہریت کی جانچ کا دائرہ اختیار اور ووٹر لسٹ کے عمل میں شفافیت۔ سپریم کورٹ نے آخر میں کہا کہ یہ معاملہ براہ راست جمہوری نظام اور شہریوں کے حق رائے دہی سے جڑا ہوا ہے، اس لیے اسے سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ عدالت نے زور دیا کہ ہمیں چھوٹے موٹے مسائل میں الجھنے کے بجائے اصل قانونی راستے پر توجہ دینی چاہیے۔
بہار میں انتخابات سے قبل ووٹر لسٹ کی ’اسپیشل انٹینسیو ریویژن‘(ایس آئی آر) پر روک لگانے سے سپریم کورٹ نے انکار کر دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں جمہوریت سے متعلق ایک اہم سوال اٹھایا گیا ہے، جو عوام کے حقِ رائے دہی سے جڑا ہوا ہے۔ عدالت نے کہا کہ درخواست گزار انتخابی کمیشن کے 24 جون کے حکم کو چیلنج کر رہے ہیں اور اسے آئین اور قانون کی دفعات کے خلاف قرار دے رہے ہیں۔
عدالت نے مزید کہا کہ درخواست گزاروں نے 1960 کے “رجسٹریشن آف الیکٹرز رولز” کا بھی حوالہ دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 2003 میں بھی ایسی ہی انٹینسیو ریویژن ہوئی تھی اور اب بھی اسے درست طریقے سے نافذ کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ ریاست میں اسمبلی انتخابات نومبر میں ہونے والے ہیں، اور اس سے پہلے انتخابی اعلامیہ جاری ہو جائے گا، اس لیے ووٹر لسٹ میں ترامیم کا عمل شفاف اور منصفانہ ہونا چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ یہ معاملہ تفصیلی سماعت کا متقاضی ہے، لہٰذا تمام فریقین 28 جولائی سے قبل اپنا جواب داخل کریں، جس دن اس معاملے پر دوبارہ سماعت ہوگی۔
سماعت کے دوران جج نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ووٹر شناخت کے لیے کمیشن صرف 11 دستاویزات تک محدود نہیں ہے۔ عدالت نے مشورہ دیا کہ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ آدھار کارڈ، ووٹر شناختی کارڈ اور راشن کارڈ کو تسلیم کرنے پر بھی غور کرے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ووٹر لسٹ میں شامل کیا جا سکے۔

RELATED ARTICLES
- Advertisment -
Google search engine

Most Popular

Recent Comments