Tuesday, July 8, 2025
Homeہندوستانجج کے گھر سے نقدی ملنے پر فوری کارروائی ہونی چاہیے تھی:...

جج کے گھر سے نقدی ملنے پر فوری کارروائی ہونی چاہیے تھی: جگدیپ دھنکھڑ

نئی دہلی:نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ نے پیر کے روز کہا کہ انہیں امید ہے کہ نئی دہلی میں ایک جج کے سرکاری رہائش گاہ سے بھاری مقدار میں نقدی ملنے کے معاملے میں مجرمانہ تحقیقات شروع کی جائے گی۔ انہوں نے اس واقعے کا موازنہ شیکسپیئر کے مشہور ڈرامے “جولیس سیزر” کے اس منظر سے کیا جس میں “آئیڈس آف مارچ” کا ذکر آتا ہے، جو آنے والے خطرے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ رومن کلینڈر میں “آئیڈس” کا مطلب مہینے کے وسط کی تاریخ ہوتا ہے اور مارچ، مئی، جولائی اور اکتوبر میں یہ تاریخ 15 ہوتی ہے۔
اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے نائب صدر نے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب نقدی برآمد ہوئی تھی تو حکومتی نظام کو فوراً کارروائی کرنی چاہیے تھی۔ سب سے پہلا قدم یہی ہونا چاہیے تھا کہ معاملے کو مجرمانہ فعل کے طور پر لیا جاتا، ملزمان کا سراغ لگایا جاتا اور انہیں قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا۔
نیشنل یونیورسٹی آف ایڈوانسڈ لیگل اسٹڈیز میں طلبہ اور اساتذہ سے گفتگو کے دوران، نائب صدر نے دہلی ہائی کورٹ کے ایک جج کے سرکاری رہائش گاہ سے بھاری مقدار میں نقدی ملنے کے واقعے کا موازنہ “آئیڈس آف مارچ” سے کیا۔ یاد رہے کہ رومن بادشاہ جولیس سیزر کا قتل 15 مارچ، 44 قبل مسیح کو ہوا تھا۔
نائب صدر نے کہا کہ 14 اور 15 مارچ کی درمیانی رات عدلیہ کو بھی “آئیڈس آف مارچ” کا سامنا کرنا پڑا، جب بڑی رقم کی برآمدگی کو عوامی طور پر تسلیم کیا گیا، لیکن آج تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ دھنکھڑ نے کہا کہ اس معاملے سے آغاز ہی سے مجرمانہ کیس کے طور پر نمٹا جانا چاہیے تھا، لیکن سپریم کورٹ کے 90 کی دہائی کے ایک فیصلے کی وجہ سے مرکزی حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ مرکزی حکومت سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے باعث کارروائی کرنے میں بے بس ہے، جس کی وجہ سے ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی۔‘‘ ان کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب میڈیا رپورٹس میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ جج یشونت ورما کے سرکاری رہائش گاہ پر آگ لگنے کے بعد وہاں سے بڑی مقدار میں غیر اعلانیہ نقدی برآمد ہوئی ہے، جس کے بعد ان کے خلاف پارلیمنٹ میں مواخذے کی کارروائی کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔
جج ورما نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کی مقررہ کمیٹی کے سامنے اپنا جواب پیش کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود ان سے عدالتی کام واپس لے لیا گیا ہے اور بعد میں ان کا تبادلہ الہ آباد ہائی کورٹ کر دیا گیا، جہاں سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کو ہدایت دی ہے کہ فی الحال انہیں کوئی عدالتی ذمہ داری نہ دی جائے۔
اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے دہلی پولیس کمشنر سنجے اروڑا اور دہلی فائر سروس کے سربراہ اتل گرگ سمیت 50 سے زائد افراد کے بیانات قلمبند کیے ہیں۔

RELATED ARTICLES
- Advertisment -
Google search engine

Most Popular

Recent Comments