Monday, July 7, 2025
Homeہندوستانجسٹس یشونت ورما کی رہائش گاہ سے نقدی ملنے کا معاملہ، سپریم...

جسٹس یشونت ورما کی رہائش گاہ سے نقدی ملنے کا معاملہ، سپریم کورٹ کا آر ٹی آئی کے تحت تحقیقاتی رپورٹ کو عام کرنے سے انکار

نئی دہلی:سپریم کورٹ نے جسٹس یشونت ورما کی سرکاری رہائش گاہ سے نقدی ملنے کے معاملے میں تشکیل دی گئی اندرون ملک تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ اور اس وقت کے چیف جسٹس (سی جے آئی) سنجیو کھنہ کے ذریعہ صدر اور وزیر اعظم کو معلومات کے حق (آر ٹی آئی) کے تحت بھیجے گئے خط کی کاپی کو عام کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے سینٹرل پبلک انفارمیشن آفیسر (سی پی آئی او) نے امرت پال سنگھ خالصہ کی آر ٹی آئی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا۔
۔21 مئی کو اپنے جواب میںسی پی آئی او نے کہا کہ یہ معلومات سپریم کورٹ کے 13 نومبر 2019 کے فیصلے (سول اپیل نمبر 10044-45/2010، سپریم کورٹ آف انڈیا بمقابلہ سبھاش چندر اگروال) کی بنیاد پر نہیں دی جا سکتی۔ اس نے آر ٹی آئی ایکٹ کے سیکشن 8(1)(ای)اور 11 کا حوالہ دیا، جو فدیوی رشتوں اور فریق ثالث کی معلومات کے افشاء پر پابندی لگاتے ہیں جب تک کہ وسیع تر مفاد عامہ اس انکشاف کو جواز فراہم نہ کرے۔ سی پی آئی او نے اس فیصلے کی وجوہات کے طور پر عدلیہ کی آزادی، رازداری کا حق، تناسب کی جانچ اور رازداری کے فرض جیسے بنیادوں کا بھی حوالہ دیا۔
یہ تنازعہ 14 مارچ 2025 کو اس وقت شروع ہوا جب دہلی میں جسٹس یشونت ورما کی سرکاری رہائش گاہ کے آؤٹ ہاؤس کے اسٹور روم میں آگ لگ گئی۔ آگ بجھانے کے دوران فائر فائٹرز کو وہاں سے بھاری مقدار میں نقدی ملی۔ اس وقت جسٹس ورما دہلی ہائی کورٹ میں جج کے طور پر کام کر رہے تھے۔ اس واقعہ کے بعد پیدا ہونے والے تنازعہ کی وجہ سے جسٹس ورما کا تبادلہ الہ آباد ہائی کورٹ میں کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ سی جے آئی کی ہدایت پر ان کے عدالتی کام بھی واپس لے لیے گئے تھے۔
اس وقت کے چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے 22 مارچ 2025 کو تین رکنی اندرون خانہ کمیٹی تشکیل دی تھی، جس میں پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شیل ناگو، ہماچل پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جی ایس سدھروالیا اور کرناٹک ہائی کورٹ کے جسٹس انو شیورمن شامل تھے۔ اس کمیٹی کی رپورٹ سی جے آئی نے 8 مئی کو صدر اور وزیر اعظم کو مزید کارروائی کے لیے بھیجی تھی۔
حالانکہ دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی ابتدائی رپورٹ، جسٹس ورما کے جواب اور دہلی پولیس کی طرف سے لی گئی تصاویر اور ویڈیوز کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرکے عام کیا گیا تھا، لیکن حتمی تحقیقاتی رپورٹ کو خفیہ رکھا گیا ہے۔
آر ٹی آئی کارکن امرت پال سنگھ خالصہ نے اس معاملے میں تحقیقاتی رپورٹ اور متعلقہ خط و کتابت کی کاپی مانگی تھی، لیکن سپریم کورٹ نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ معلومات عدلیہ کی آزادی اور رازداری کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اس فیصلے نے ایک بار پھر اس معاملے کو روشنی میں لایا ہے، اس بارے میں سوالات اٹھائے ہیں کہ کیا ایسی معلومات کا افشاء وسیع تر عوامی مفاد میں ضروری ہے۔ یہ معاملہ نہ صرف عدلیہ کی شفافیت پر سوال اٹھاتا ہے بلکہ آر ٹی آئی قانون کے دائرہ کار اور حدود پر بھی بحث کو جنم دیتا ہے۔

RELATED ARTICLES
- Advertisment -
Google search engine

Most Popular

Recent Comments