
واشنگٹن:امریکی محکمہ خزانہ نے پیر کے روز ایران پر نئی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ پابندیاں ایسے وقت میں عائد کی جا رہی ہیں جب ایران اور امریکہ نے مسقط میں اتوار کے روز تہران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کا چوتھا دور شروع کیا ہے۔ اس سے قبل اسلامی جمہوریہ نے یورینیم کی افزودگی پر اپنی وابستگی کا اعادہ کیا تھا جسے واشنگٹن پہلے ہی “ریڈ لائن” قرار دے چکا ہے۔
دونوں فریقوں نے 12 اپریل کو سلطنت عمان کی ثالثی میں مذاکرات شروع کیے تھے۔ سلطنت عمان نے 2015 میں تہران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ایٹمی مسئلے پر ایک بین الاقوامی معاہدے تک پہنچنے میں بھی ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔
اب تک دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات کے تین دور مسقط اور روم کے درمیان منعقد ہو چکے ہیں۔ چوتھا دور 3 مئی کو اطالوی دارالحکومت میں طے تھا جسے “لاجسٹک وجوہات” کی بنا پر ملتوی کر دیا گیا تھا۔ بعد میں ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا چوتھا دور سلطنت عمان کی ثالثی میں مسقط میں شروع ہو گیا ہے۔ مذاکرات کی قیادت ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کر رہے ہیں۔
امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات اس وقت شروع ہوئے تھے جب اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی قیادت کو ایک خط بھیجا تھا جس میں مذاکرات پر زور دیا گیا اور ناکامی کی صورت میں ان کے خلاف فوجی آپشن استعمال کرنے کی دھمکی دے دی گئی تھی۔
مذاکرات کا چوتھا دور اس وقت جاری ہے جب ٹرمپ آج 13 مئی سعودی عرب، قطر اور امارات کا دورہ شروع کر رہے ہیں۔ ان کا یہ دورہ 16 مئی تک جاری رہے گا۔ اگرچہ دونوں فریقوں نے مذاکرات میں پیش رفت کی تصدیق کی ہے لیکن یورینیم کی افزودگی کے حوالے سے دونوں ملکوں کے موقف میں اختلاف موجود ہے۔ ان مذاکرات کا مقصد ایک نیا معاہدہ کرنا ہے جو ایران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے سے روکے اور اس کے بدلے اس کی معیشت کو مفلوج کرنے والی پابندیاں ہٹالی جائیں۔