
واشنگٹن:وائٹ ہاؤس نے ایک اہم اعلان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ چین پر عائد تجارتی محصولات میں کسی بھی قسم کی یکطرفہ کمی کا امکان اس وقت تک نہیں جب تک بیجنگ حکومت خاطر خواہ رعایتیں نہ دے۔
یہ بیان جمعہ کے روز اس وقت سامنے آیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اچانک ایک تجویز دیتے ہوئے کہا کہ چین پر عائد موجودہ 145 فیصد محصولات کو کم کر کے 80 فیصد تک لایا جا سکتا ہے۔ یہ تجویز سوئٹزرلینڈ میں متوقع امریکی چینی تجارتی مذاکرات کے تناظر میں سامنے آئی ہے۔
وہائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: “یہ وہ عدد ہے جو صدر نے پیش کیا ہے، اب دیکھتے ہیں اختتام ہفتہ تک کیا پیش رفت ہوتی ہے”۔
صدر ٹرمپ نے جمعہ کو اپنی سوشل میڈیا ایپ “ٹروتھ سوشل” پر ایک بیان میں کہاکہ “چین کے لیے 80 فیصد محصولات مناسب فیصلہ معلوم ہوتا ہے!” اس بیان نے عالمی مارکیٹوں میں ہلچل مچا دی۔
انہوں نے مزید کہا کہ “فیصلہ اب ‘اسکاٹ بی’ پر ہے”۔ یہاں ان کا اشارہ امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بَیسینٹ کی جانب تھا جو رواں ہفتے جنیوا میں چین کے نائب وزیراعظم ہی لِیفِنگ سے ملاقات کریں گے۔ اس ملاقات کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارتی کشیدگی کو کم کرنا ہے۔
ٹرمپ نے اپنی پوسٹ میں کہاکہ “بہت سی عظیم تجارتی ڈیلز آنے والی ہیں”، تاہم یہ واضح نہیں کیا کہ آیا 80 فیصد کی شرح کو وہ مستقل تجویز سمجھتے ہیں یا یہ محض ایک عبوری تجویز ہے۔
دوسری جانب چین نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے امریکی مصنوعات پر 125 فیصد درآمدی ڈیوٹی عائد کر دی ہے، جس سے دونوں ملکوں کے درمیان جاری تجارتی جنگ مزید شدت اختیار کر گئی ہے۔
ٹرمپ نے ایک اور پوسٹ میں واضح اور جلی حروف میں لکھاکہ “چین کو امریکہ کے لیے اپنی منڈیاں کھولنی ہوں گی، یہ ان کے اپنے مفاد میں ہوگا!!! بند منڈیوں کا ماڈل ناکام ہو چکا ہے!!!”
ادھر چین کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اپریل کے مہینے میں عالمی منڈیوں میں اس کی برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ چین اپنے تجارتی دباؤ کو کم کرنے کے لیے متبادل منڈیوں کی تلاش میں ہے۔