
غزہ:غزہ میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (انروا) کے میڈیا مشیر عدنان ابوحسنہ نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں امداد کی تقسیم کے حوالے سے امریکی منصوبہ آبادی کو جبری طور پر بے گھر کرنے تک جائے گا۔
انہوں نے کہا ہے کہ اس منصوبے میں صرف جنوبی غزہ میں آنے والوں کے لیے صرف چار تقسیم کے مقامات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ’’العربیہ‘‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایجنسی کے مختلف علاقوں میں درجنوں تقسیم کے مقامات موجود ہیں اور اس کی 76 سالہ تاریخ اور تجربہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم غزہ میں امداد کی تقسیم کے لیے زیر بحث طریقہ کار پر تحفظات رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیش کردہ منصوبہ انسانی ضروریات کو پورا نہیں کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ منصوبے میں پہلے مرحلے میں صرف 12 لاکھ افراد کی بات کی گئی ہے اور آپریشن پر عمل درآمد کی تفصیلات کسی کو معلوم نہیں ہیں۔
جمعہ کو تنظیم کی ترجمان نے کہا کہ “انروا” کے بغیر غزہ میں انسانی امداد کی تقسیم بہت مشکل ہوگی۔ عمان سے بات کرتے ہوئے جولیٹ توما نے زور دیا کہ غزہ جیسی جگہ پر انروا کا متبادل تلاش کرنا ناممکن ہے۔ ہم سب سے بڑی انسانی تنظیم ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایجنسی بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہیں بھی چلاتی ہے۔ انروا کے بغیر کسی بھی انسانی آپریشن کا تصور کرنا بہت بہت مشکل ہے۔
امریکہ نے جمعرات کو اعلان کیا تھا کہ ایک نیا ادارہ جلد ہی فلسطینی علاقے میں انسانی امداد کی انتظامی اور تقسیم کی ذمہ داری سنبھال لے گا۔ اقوام متحدہ میں امریکی ایلچی سٹیو وٹکوف کی جانب سے پیش کی جانے والی اس پہل کو غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن انجام دے گی۔ یہ ایک نیا ادارہ ہے اور ممکنہ طور پر عالمی ادارہ برائے خوراک کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور نوبل امن انعام یافتہ ڈیوڈ بیزلی اس کی سربراہی کریں گے۔
اس ادارے کے تحت غزہ کی پٹی میں 4 تقسیم کے مراکز قائم کیے جائیں گے۔ اخبار “یدیعوت احرونوت” کے مطابق ہر مرکز 3 لاکھ افراد کو امداد تقسیم کرے گا اور اس میں اسرائیلی فوج کی براہ راست مداخلت نہیں ہوگی۔
اخبار نے کہا کہ امریکی اقدام دو مراحل پر مشتمل ہے، پہلا مرحلہ صرف علاقے کے 12 لاکھ باشندوں کو نشانہ بنائے گا۔ غزہ پر اسرائیلی فوجی آپریشن کی 2 مارچ کو بحالی کے بعد سے اسرائیل نے علاقے میں انسانی امداد کے داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ غزہ کی پٹی میں 24 لاکھ افراد رہتے ہیں۔