
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جسٹس یشونت ورما کے معاملے سے متعلق دستاویزات اپلوڈ کر دیے ہیں۔ ان میں چیف جسٹس آف انڈیا اور دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے درمیان ہونے والی خط و کتابت کے علاوہ، جسٹس ورما کی جانب سے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بھیجا گیا جواب بھی شامل ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ جسٹس ورما کے سرکاری بنگلے میں آگ لگ گئی تھی، جب وہ شہر سے باہر تھے۔ جج کے پی ایس (پرسنل سیکیورٹی) نے پی سی آر (پولیس کنٹرول روم) کو اطلاع دی۔ آگ پر قابو پا لیا گیا، لیکن اس دوران پولیس اور فائر بریگیڈ کے اہلکاروں کو بنگلے کے اندر بڑی مقدار میں نقدی کے ڈھیر نظر آئے۔ ان میں سے ایک بڑی مقدار آدھی جل کر راکھ ہو چکی تھی۔
یہ معاملہ اعلیٰ حکام تک پہنچا اور پھر سپریم کورٹ تک بات آ گئی۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے اس معاملے میں فوری کارروائی کرتے ہوئے سپریم کورٹ کالجیم کی میٹنگ بلائی، جس میں جسٹس ورما کا تبادلہ الہ آباد ہائی کورٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے اپنی سطح پر معاملے کی تحقیقات شروع کر دی۔
اب تک کی تحقیقات میں جو کچھ سامنے آیا ہے، اسے سپریم کورٹ نے عوامی طور پر دستیاب کرا دیا ہے، جس میں جلی ہوئی رقم کی تصاویر بھی شامل ہیں۔ دستاویزات میں کیا کچھ شامل ہے؟اس کی تفصیل یوں ہے۔ 14 مارچ کی رات: جج کے پی ایس نے پی سی آر کو آگ لگنے کی اطلاع دی۔
فائر بریگیڈ کو الگ سے نہیں بلایا گیا۔ 15 مارچ کی صبح: دہلی پولیس کمشنر نے دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو معاملے کی اطلاع دی، جو اس وقت لکھنؤ میں موجود تھے۔ پولیس کمشنر نے آدھی جلی ہوئی نقدی کی تصویریں اور ویڈیوز بھی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بھیجیں۔
پولیس کمشنر نے بعد میں یہ بھی اطلاع دی کہ جج کے بنگلے کے ایک سیکیورٹی گارڈ کے مطابق، 15 مارچ کو کمرے سے ملبہ صاف کیا گیا تھا۔ جب دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے جسٹس ورما سے ملاقات کی تو انہوں نے کسی نقدی کی موجودگی سے انکار کیا اور کہا کہ وہ کمرہ سب لوگ استعمال کرتے ہیں۔
جب چیف جسٹس نے انہیں ویڈیو دکھائی تو انہوں نے اسے ایک سازش قرار دیا۔ دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے بھارت کے چیف جسٹس کو بھیجی گئی چٹھی میں اس معاملے کی گہرائی سے تفتیش کی ضرورت پر زور دیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا کی ہدایت پر جسٹس ورما کے گزشتہ 6 ماہ کے کال ریکارڈ نکالے گئے ہیں۔ جسٹس ورما کو یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنا فون ضائع نہ کریں اور نہ ہی کسی چیٹ کو ڈیلیٹ کریں۔