
واشنگٹن:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فاکس نیوز کو دیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ غزہ کے حوالے سے ان کا منصوبہ اچھا ہے لیکن وہ اسے مسلط نہیں کریں گے اور وہ صرف اس کی سفارش کر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ غزہ مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے اور اگر اس کے باشندوں کو انتخاب کی آزادی دی گئی تو وہ اسے چھوڑ دیں گے۔ امریکی صدر نے کہا کہ غزہ ایک شاندار محل وقوع ہے اور اسرائیل کا ماضی میں اسے ترک کردینا قابل اعتراض ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے چند روز قبل اعلان کیا تھا کہ وہ غزہ کو خریدنے اور اس کی ملکیت حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ ساحلی پٹی کے کچھ حصے مشرق وسطیٰ کے دیگر ملکوں کو تعمیر نو کی کوششوں میں مدد کے لیے دے سکتے ہیں۔ انہوں نے اس وقت ان ملکوں کی وضاحت نہیں کی تھی۔ تاہم بعد میں وہ فلسطینی پٹی کو خالی کرنے کے خیال کو برقرار رکھتے ہوئے اسے خریدنے کی بات سے پیچھے ہٹ گئے تھے۔ ٹرمپ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ غزہ کو مستقبل کی ترقی کے لیے ایک اچھے مقام میں بدل دے گا۔
ان کی اس اچانک تجویز کو بین الاقوامی سطح پر اور عرب دنیا کی جانب سے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ تمام عرب ملکوں نے فلسطینیوں کے حق واپسی اور غزہ سے ان کی نقل مکانی کو مسترد کردیا۔ مغربی ملکوں اور امریکہ کے اتحادیوں نے بھی واضح کیا کہ وہ مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے موقف پر قائم ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ غزہ کی آبادی کی نقل مکانی انسانی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور فلسطین کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔
دوسری طرف ٹرمپ کی اس تجویز کی اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کھل کر حمایت کی اور کہا کہ ٹرمپ کا خیال اچھا اور بے مثال ہے اور ایک معقول حل فراہم کر رہا ہے۔ جمعرات کو مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی سٹیفن وٹ کوف نے صورت حال کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کے غزہ کے منصوبے کا مقصد فلسطینیوں کو بے گھر کرنا نہیں ہے۔ غزہ کے مستقبل کے بارے میں یہ بات چیت اس نہج پر ہو رہی ہے کہ فلسطینیوں کے لیے بہتر مستقبل کیسے تلاش کیا جائے۔
۔4 فروری کو ٹرمپ نے تجویز پیش کی کہ امریکہ غزہ کی پٹی کا کنٹرول سنبھالے اور مصر اور اردن سمیت دیگر مقامات پر فلسطینیوں کو دوبارہ آباد کرے۔ یہ تجویز بین الاقوامی طور پر مسترد ہو گئی۔ لیکن وِٹکوف نے سعودی خودمختار دولت فنڈ سے منسلک ایک غیر منافع بخش تنظیم کی میزبانی میں میامی میں فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ پر ٹرمپ کے تبصرے گزشتہ 50 سالوں میں تجویز کردہ حل کے مقابلے میں زیادہ بہتر تھے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ نے غزہ کی پٹی میں بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی ہے۔ اسے غیر پھٹنے والے ہتھیاروں سے بھر دیا گیا ہے۔ لوگوں کی واپسی کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا ناممکن ہوگیا۔ وِٹکوف نے مزید کہا کہ اس کے لیے بہت زیادہ صفائی، تخیل اور ایک شاندار ماسٹر پلان کی ضرورت ہوگی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم نقل مکانی کے لیے کسی منصوبے پر عمل کر رہے ہیں۔ جب صدر اس بارے میں بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ہر ایک کو یہ سوچنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ فلسطینی عوام کے لیے کیا بہترین حل ہے۔ وٹ کوف نے مزید کہا کہ مثال کے طور پر کیا وہ وہاں کسی گھر میں رہنا چاہتے ہیں یا کیا وہ بہتر جگہ پر جانے کا موقع حاصل کرنا پسند کریں گے تاکہ نوکریاں، کاروبار کے مواقع اور بہتر مالی امکانات حاصل کرنے کیے جا سکیں۔