Monday, May 5, 2025
Homeدنیاشام میں پناہ گزین کیمپوں کے مالی اخراجات اٹھانے سے امریکہ نے...

شام میں پناہ گزین کیمپوں کے مالی اخراجات اٹھانے سے امریکہ نے ہاتھ کھڑے کردیے

واشنگٹن:امریکہ نے اقوام متحدہ کو بتا دیا ہے کہ وہ شام کے شمال مشرق میں قائم پناہ گزین کیمپوں پر اب خرچ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ امریکہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے ان پناہ گزینوں کو کھلا نہیں سکتا ہے۔
امریکہ کی طرف سے یہ بات ایسے وقت میں کی گئی ہے جب خود امریکہ ایک منصوبہ پیش کیے ہوئے کہ 20 لاکھ فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر اردن اور مصر میں پناہ گزین کیمپوں میں آباد کر دیا جائے۔
واضح رہے شام کے شمال مشرقی علاقوں میں وہ پناہ گزین ہیں جن کے خاندانوں کو امریکی و اتحادیوں بمباری سے منتشر کر کے ان کے علاقوں سے نکالا گیا تھا کہ ان خاندانوں کا داعش سے تعلق ہے اور یہ نوجوان داعش کے جنگجو تھے جنہیں بمباری وغیرہ میں ہلاک کیا جا چکا ہے۔ اب یہ بچے خاندان اور جنگجو ہیں جنہیں ایک طرح سے اقوام متحدہ کی مدد سے قید کر کے ایک خاص علاقے میں بند رکھا گیا ہے ۔
اب جبکہ شام میں ایک نئی رجیم آ گئی ہے اور امریکہ کے لیے شام میں کوئی چیلنج باقی نہیں رہا ہے تو امریکہ نے ان خیموں میں قائم قید خانہ نما پناہ گزین کیمپوں کے اخراجات سے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے اپنے اقوام متحدہ میں قائم مقام سفیر کے ذریعے بدھ کے روز سلامتی کونسل کے توسط سے اقوام متحدہ کو اطلاع کر دی ہے۔
عام طور پر اقوام متحدہ امریکہ اور دنیا کے جارح ملکوں کا جنگوں کے نتیجے میں چھوڑا گیا ‘ انسانی ملبہ ‘ اٹھانے اور ٹھکانے لگائے رکھنے کا کام کراتا ہے۔ جسے انسانی بنیادوں پر بے گھر کیے گئے خاندانوں یا یتیم کیے گئے بچوں اور بیوہ بنائی گئی خواتین اور معذوروں یا زخمیوں کو ایک خاص علاقے کے اندر محدود کرتے ہوئے اقوام متحدہ ان کی مرہم پٹی کرنے اور انہیں دال روٹی مہیا کرنے کی ذمہ داری سنبھال لیتا ہے۔
اب تک امریکہ اور کئی دوسرے جارح ملکوں بشمول قابض اسرائیل کے لیے ایک طرح سے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یہ خدمات انسانی بنیادوں کے نام پر انجام دیتے ہیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جنگی علاقے سے لوگوں کو نکال کر ایک طرف کر دیا جاتا ہے اور کوئی انسانی رکاوٹ باقی نہیں رہتی۔ دوسرا یہ فائدہ ہو جاتا ہے کہ جارح یا قابض ملک کی جس قدر فوری بدنامی کا ماحول بن سکتا ہے اقوام متحدہ اس کو روکے رکھتا ہے۔ بہر حال اقوام متحدہ کے لوگ یہ کام پوری محنت و مستعدی سے کرتے ہیں۔
شام کے شمال مشرقی علاقے میں بھی اقوام متحدہ یہ خدمت انجام دے رہا تھا، تاہم امریکہ کی طرف سے بدھ کے روز کہہ دیا گیا گیا ہے ‘ امریکہ نے یہ بوجھ بہت عرصہ اٹھا لیا ہے اب مزید اسے اٹھانا مشکل ہو گیا ہے۔ اس لیے ان کیمپوں کی مالی مدد کرنا اب امریکہ کے بس میں نہیں ہے۔ امریکی سفیر ڈروتھی شیا نے ‘ہول’ اور ‘روج’ نامی پناہ گزین کیمپوں کے بارے میں یہ بات سلامتی کونسل کے سامنے کہی ہے۔
امریکہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ تمام مالک جن سے ان پناہ گزین کیمپ میں قید کیے گئے بے گھر لوگوں کا تعلق ہے انہیں تیزی سے سنبھالنے کے لیے بندو بست کریں۔ جو جنگ کے بعد بھی اسی خطے میں رہ گئے ہیں۔
خیال رہے یہ لوگ 2019 میں داعش کو شکست دینے کے بعد ان قید نما پناہ گزین کیمپوں میں رکھے گئے تھے۔ الہول کیمپ میں 40000 افراد بند ہیں۔ کیمپوں میں کئی پورے کے پورے خاندان ہیں۔ جس سے امریکہ کے بقول ان کی آبادی علاقے کے ملکوں کے لیے تشویش کا باعث بن رہی ہے۔
اہم بات ہے کہ یہ کیمپ جنہیں پناہ گزینوں کے کیمپ قرار دیا جاتا ہے عملاً امریکہ کے مفتوحین کے لیے قید خانے ہیں اور ان کی نگرانی اور انتطامی کنٹرول کا اصل کام امریکی حمایت یافتہ کردوں پر مشتمل فورس ‘ سیریئن ڈیموکریٹک فورس ‘ کرتی ہے۔
کئی سال کی قید کے بعد اب کوشش ہو گی کہ ان کے متعلقہ ملکوں کو امریکہ واپس بھجوانے کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کرے۔ زیادہ تر دباؤ عرب ملکوں پر ہی آنے کا امکان ہے۔ تاہم ان میں مغربی ملکوں سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین نما قیدی بھی شامل ہیں۔ امریکہ کی فوج کے 2000 کے قریب اہلکار اب شام میں موجود ہیں۔ بشارالاسد کی حکومت جانے کے بعد ان کی تعداد میں اضافہ کیا گیا تھا۔

RELATED ARTICLES
- Advertisment -
Google search engine

Most Popular

Recent Comments