دوحہ : آخر کا اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا،ڈیڑھ سال کی یک طرفہ جنگ میں ۶ ہزار فلسطینیوں کی ہلاکت نے دنیا کو ہلا دیا تھا،جبکہ اس دوران اسرائیل کا بھی جانی نقصان ہوا لیکن اس جنگ نے غزہ کے تین تہائی افراد کو بے گھر کردیا تھا ۔ اس جنگ بندی یا معاہدے کا اعلان قطر نے کیا ۔قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے اعلان کیا کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد اتوار سے ہوگا جس کے بعد 15 ماہ سے جاری جنگ ختم ہوجائے گی۔قطر کے وزیر اعظم نے دوحہ میں اعلان کیا کہ حماس اور اسرائیل جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر متفق ہوگئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ معاہدے کے پہلے مرحلے میں 33 یرغمالیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔
اس سے قبل تین امریکی اور ایک حماس کے عہدیدار نے تصدیق کی کہ معاہدے پر اتفاق ہوگیا ہے تاہم اسرائیلی وزیراعظم کے آفس کا کہنا ہے کہ معاہدے کی حتمی جزئیات طے کی جارہی ہیں۔نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق ’امید ہے معاہدے کی جزئیات کو آج رات ختمی شکل دی جائے گی۔معاہدے کے ساتھ ہی غزہ میں 15 مہینے سے جاری جنگ ختم ہو جائے گی۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ کب اور کتنے بے گھر فلسطینی غزہ واپس آ سکیں گے، کیا اس معاہدے کے بعد غزہ میں مستقل جنگ بندی ہو گی بھی یا نہیں اور آیا اسرائیل غزہ سے اپنی فوج مکمل طور پر نکالے گا یا نہیں۔ یہ نکات حماس کے بنیادی مطالبات ہیں جن کے بدلے وہ تمام یرغمال افراد کو رہا کرے گا۔ابھی تک جنگ کے بعد غزہ کے مستقبل کے حوالے سے کئی سوالات جواب طلب ہیں جن میں غزہ کی دوبارہ بحالی اور آبادکاری کی نگرانی کون کرے گا۔اس کے باوجود معاہدے کے اعلان سے اس بات کی امید ہو چلی ہے کہ شاید حماس اور اسرائیل ڈیڑھ برس سے جاری اس تباہ کن جنگ کو سمیٹ رہے ہیں۔ جنگ کی شروعات اکتوبر 2023 میں حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے سے ہوئی تھی جس میں 12 اسرائیلی مارے گئے تھے اور 250 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے شروع کی جانے والی جنگ میں 46 ہزار سے زائد فلسطینی مارے گئے اور غزہ کی 90 فیصد آبادی بے گھر ہوگئی۔ نومبر 2023 میں ایک ہفتے سے زائد جنگ بندی کے دوران 100 سے زائد یرغمال افراد کو حماس نے رہا کر دیا تھا۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کئی ہفتوں پر محیط تکلیف دہ مذاکرات کے بعد ہونے والے معاہدے کے مطابق حماس درجنوں اسرائیلی یرغمال افراد کو رہا کرے گا جس کے بدلے میں اسرائیل سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو چھوڑے گا۔معاہدے کے مطابق غزہ جنگ سے بے گھر ہونے والے لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں کو واپس آئیں گے۔ جنگ بندی معاہدے کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی کابینہ کی منظوری درکار ہو گی تاہم توقع کی جا رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں اس پر عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔معاہدے کے بعد فوری طور پر چھ ہفتوں کی جنگ بندی ہو گی جس کے دوران جنگ کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے مذاکرات ہوں گے۔
قطری وزیراعظم نے امید ظاہر کی کہ’ یہ معاہدہ لڑائی کے مستقل خاتمے کی راہ ہموار کرے گا۔‘
ان کا کہنا تھا’ ثالثی کرنے والے تینوں ممالک قاہرہ میں قائم ایک باڈی کے ذریعے جنگ بندی معاہدے کی نگرانی کریں گے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا اس پیش رفت پر ’پرجوش‘ ہوں۔ یہ معاہدہ غزہ میں لڑائی کو روک دے گا۔ فلسطینی شہریوں کے لیے انتہائی ضروری انسانی امداد میں اضافہ کرے گا اور یرغمالیوں کو ان کے اہل خانہ کے ساتھ ملائے گا۔
معاہدے پر بریفنگ پانے والے حکام نے اس کے یہ اہم نکات بتائے ہیں۔
سیز فائر کے ابتدائی چھ ہفتوں میں اسرائیلی فوج کا مرکزی غزہ سے بتدریج انخلا اور بے گھر فلسطینیوں کی شمالی غزہ میں واپسی ہو گی۔
سیزفائر کے دوران روزانہ غزہ میں 600 ٹرکوں پر مشتمل انسانی امداد کی اجازت دی جائے گی، جن میں سے 50 ٹرک ایندھن لے کر آئیں گے اور 300 ٹرک شمال کے لیے مختص ہوں گے۔
حماس 33 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گی، جن میں تمام خواتین (فوجی اور شہری)، بچے اور 50 سال سے زیادہ عمر کے مرد شامل ہوں گے۔
حماس پہلے خواتین قیدیوں اور 19 سال سے کم عمر بچوں کو رہا کرے گی، جس کے بعد 50 سال سے زیادہ عمر کے مردوں کو۔
اس دوران اسرائیل اپنے ہر سویلین قیدی کے بدلے 30 فلسطینیوں اور ہر اسرائیلی خاتون فوجی کے بدلے 50 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
سرائیل سات اکتوبر، 2023 کے بعد سے گرفتار تمام فلسطینی خواتین اور 19 سال سے کم عمر کے بچوں کو پہلے مرحلے کے اختتام تک رہا کرے گا۔
رہائی پانے والے فلسطینیوں کی کل تعداد اسرائیلی قیدیوں کی رہائی پر منحصر ہوگی، اور یہ تعداد 990 سے 1,650 قیدیوں تک ہو سکتی ہے، جن میں مرد، خواتین اور بچے شامل ہیں۔
پہلے مرحلے کے 16ویں دن معاہدے کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات شروع ہوں گے، جس میں باقی تمام قیدیوں کی رہائی، بشمول اسرائیلی مرد فوجیوں، مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی فوجیوں کا مکمل انخلا شامل ہوگا۔
تیسرےمرحلے میں توقع ہے کہ تمام باقی ماندہ لاشوں کی واپسی اور غزہ کی تعمیر نو کا آغاز شامل ہوگا، جس کی نگرانی مصر، قطر اور اقوام متحدہ کریں گے۔
جیسے ہی معاہدےکی خبر پھیلی تل ابیب میں مظاہرین نے یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جبکہ غزہ بھر میں ہزاروں افراد نے اس معاہدے پر جشن منایا۔ غزہ میں بے گھر ہونے والے النصیرات پناہ گزین کیمپ میں 45 سالہ راندا سمیح نے کہا ’مجھے یقین نہیں کہ ایک سال سے زیادہ کا یہ ڈراونا خواب آخر کا ر ختم ہو رہا ہے۔ہم نے بہت سے لوگوں کو کھو دیا ہے، ہم نے سب کچھ کھو دیا ہے۔حماس کا کہنا ہے’ جنگ بندی ہمارے عظیم فلسطینی عوام کی افسانوی ثابت قدمی اور غزہ کی پٹی میں پندرہ ماہ سے زیادہ کی ہماری جراتمندانہ مزاحمت کا نتیجہ ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی حماس اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’آج امریکہ کی جانب سے کئی ماہ کی سفارت کاری کے بعد مصر اور قطر کے ساتھ اسرائیل اور حماس کے درمیان سیز فائر اور قیدیوں کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔
جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ ’اس معاہدے سے غزہ میں لڑائی رک جائے گی، فلسطینی شہریوں کے لیے انتہائی ضروری انسانی امداد میں اضافہ ہوگا اور قیدیوں کو 15 ماہ سے زائد عرصے تک قید میں رکھنے کے بعد ان کے اہل خانہ سے ملایا جائے گا۔
حماس کے ایک عہدیدار نے معاہدے کو ’ایک عظیم کامیابی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ معاہدہ اس داستان کی عکاسی کرتا ہے جو غزہ کی ثابت قدمی، اس کے عوام اور اس کی مزاحمت کی بہادری کے ذریعے حاصل کیا گیا۔
امریکی ترجمان میتھیو ملر نے پریس کانفرنس میں کہا فائر بندی کا یہ معاہدہ صدر بائیڈن، وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن، قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون، سینٹرل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ولیم برنز، بریٹ میک گرک اور حکومت کے دیگر عہدیداروں کے ساتھ ساتھ قطر اور مصر کی حکومتوں میں ہمارے شراکت داروں کی وسیع سفارتی کوششوں کے نتیجے میں ہوا ہے۔