غزہ:یورپی ملکوں سے تعلق رکھنے والی کئی مالیاتی کمپنیوں نے عالمی رائے عامہ کے دباؤ اور غزہ میں جنگ مخالف آوازوں کے دباؤ میں آکر اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور معاہدات کو ختم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے ‘ رائٹرز ‘ کے تجزیے کے مطابق یہ پیش رفت عالمی مراکز میں غزہ جنگ کے خلاف آنے والے رد عمل کے نتیجے میں ہوئی ہے۔
یورپی ملکوں کے بنک اور بعض دیگر کمپنیاں ماحولیاتی ایشوز اور انتظامی حوالے سے کافی کھلی اور واضح رائے رکھنے والی ہوتی ہیں۔ لیکن جنگوں کے بارے میں وہ اپنا ممکنہ رد عمل یا نکتہ نظر کم ہی واضح کرتی ہیں۔
معروف تجارتی کمپنی ‘یونی کریڈٹ’ نامی بڑی کمپنی نے اپنے معاہدات اور تعلقات کے لیے اسرائیل اور اسرائیلی کمپنیوں کو ممنوع قرار دی گئی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔ اس امر کی ایک اور ڈچ این جی او نے بھی تصدیق کی ہے۔ تاہم ‘یونی کریڈٹ’ اور اسرائیلی وزارت خزانہ دونوں نے اس بارے میں کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
جبکہ اطالوی بینک نے دفاعی شعبے کے بارے میں اپنی پالیسی میں واضح کر رکھا ہے کہ کسی بھی ملک کو اسلحے کی برآمدات کے لیے براہ راست مالی اعانت فراہم نہیں کی جاتی ہے۔ بنک اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات سے متعلق اٹلی کے رہنما اصولوں سے بالاتر ہے۔
اسی دوران ناروے کی اثاثوں کے انتظام و انصرام سے متعلق کمپنی ‘ سٹور برینڈ’ اور فرانس کی انشورنس سے متعلق کمپنی ‘اے ایکس اے ‘ نے اپنے پاس موجود اسرائیلی کمپنیوں کے حصص فروخت کر دیے ہیں۔ ان میں اسرائیلی بنکوں کے حصص بھی شامل ہیں ۔
مارٹن روہنر گلوبل الائینس فار بنکنگ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ ان کے زیر قیادت یہ ادارہ پائیداری فنانسنگ کے امور کو دیکھتا ہے مگر مارٹن روہنر کہتے ہیں ‘ ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ صنعتی میدان میں ایک نیا آغاز ہوگا۔’ تاہم انہوں نے اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ بنک یہ دیکھنے لگے ہیں کہ انہیں اپنا سرمایہ کس جگہ لگانا ہے اور کس جگہ نہیں لگانا ہے۔
روہنر نے مزید کہا ‘ یہ پائیدار ترقی کے اصولوں اور اقدار کے ہی منافی ہے۔
اسلحے کی تیاری اور تجارت پر سرمایہ لگانے والے اسرائیلی وزیر خزانہ بذالیل سموٹریچ نے پچھلے ہفتے ایک پریس بریفنگ کے دوران بتایا تھا ‘ بلا شبہ اسرائیلی معیشت کے لیے چیلنج آرہے ہیں ۔ تاہم ہماری کمپنیاں اب بھی دولت بڑھا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا غیر ملکی سرمایہ کار کمپنیوں کے ساتھ ملاقات ہوئی ہے۔ ان کا ہماری ملکی معیشت پر آج بھی بھروسہ موجود ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے ‘ رائٹرز ‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ ‘ اسرائیل میں سرمایہ کاری کے لیے غزہ جنگ کی وجہ سےمشکلات بڑھ رہی ہیں۔
ممکنہ وسیع تر اثرات ‘سٹور برانڈ’ کی طرف سے اٹھائے گئے نکات میں دیکھے جا سکتے ہیں، جس میں ایک فائلنگ نے غزہ میں بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خطرے کا حوالہ دے کر امریکی کمپنی پالانٹیز کے لیے تقریباً 24 ملین ڈالر کی ہولڈنگ منقطع کر دی ہے۔ وجہ یہ بتائی ہے کہ امریکی کمپنی اسرائیلی فوج کو ٹیکنالوجی فراہم کرتی ہے ، تاہم امریکی کمپنی اس پر تبصرہ کرنے سے گریزاں ہے۔
‘سٹور برانڈ’ کے سرمایہ کاری کے سالانہ جائزے کے مطابق 2023 کے آخر تک، اس نے فلسطینی علاقوں پر قبضے کے سلسلے میں اپنے محکموں میں اسرائیلی کمپنیوں سمیت 24 فرموں کونکال دیا تھا۔
بین الاقوامی عدالت انصاف، اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت نے جنوری میں فیصلہ سنایا کہ نسل کشی سے محفوظ رکھنے کے لیے فلسطینیوں کے حقوق کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے ممکنہ خطرے کا بین الاقوامی عدالت انصاف کے اس حکم کا غیر معمولی اثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اسرائیل کے حربوں کو سمجھنے والوں کو اس سے ایک نئی آغاز کا جواز فراہم ہو گیا ہے، جس میں وہ اسرائیل میں سرمایہ کاری سے گریز کر سکتے ہیں۔ عدالت انصاف نے جولائی 2024 میں کہا ہے کہ یہودی بستیوں سمیت فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ غیر قانونی ہے۔
اسرائیل ان فیصلوں کو ماننے سے انکاری ہے۔ تاہم عدالت انصاف کے یہ فیصلے اب انسانی حق کے لیے سرگرم کارکنوں اور آواز اٹھانے والی حکومتوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے ساتھ مل کر سرمایہ کاری کے فیصلوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔
یورپ کی سب سے بڑی بیمہ کمپنیوں میں سے ایک بینک بارکلیز اور جرمن انشورنس کمپنی الیانز کو اسرائیل کے بائیکاٹ کی مہم چلانے والوں نے تیزی سے نشانہ بنایا ہے۔
پروفیسر ڈیوڈ کنلی سڈنی لاء سکول میں قانون اور انسانی حقوق کے شعبے کے سربراہ ہیں وہ کہتے ہیں’ زیادہ شفافیت اور جانچ پڑتال کی بڑھتی ہوئی مانگ کا مطلب صرف یہ ہے کہ اب مالیاتی ادارے اسلحے سے متعلقہ تجارتوں اور ریاستوں کے ساتھ اپنی وابستگیوں کے بارے میں خود تشخیص کو تیزتر اور وسیع تر کریں گے۔’
آئر لینڈ نےجاری غزہ جنگ کے بارے میں ایک واضح موقف رکھا ہے، اب اس کے سٹریٹجک انویسٹمنٹ فنڈ نے اسرائیل کی چھ کمپنیوں سے اپنا ناطہ توڑ دیا ہے۔ اسرائیلی کمپنیوں کے حصص فروخت کر کے ان سے جان چھڑالی ہے۔ یہ حصص 3.26 ملین ڈالر کی مالیت کے ہیں۔ آئر لینڈ کے ترجمان کے مطابق ان میں اسرائیل کے بعض بڑے بنک بھی شامل ہیں۔ اسی سال کے شروع میں آئر لینڈ کے مالیاتی فنڈ کے مطابق اب رسک والی سرمایہ کاری فنڈ کے ‘پیرا میٹرز’ میں نہیں آتی ہے۔
جبکہ ناروے کے 1.8 ٹریلین ڈالر کا حامل ویلتھ فنڈ دنیا کا سب سے برا ویلتھ فنڈ ہے۔ اس نے بھی کہا ہے کہ وہ غزہ کی جنگ سے جڑے معاملات سے متعلق کمپنیوں کے حصص کو چھوڑ سکتا ہے۔ کیونکہ فلسطینی علاقوں میں اخلاقی معیار ان کے ساتھ بزنس کی اجازت نہیں دیتے۔
غزہ میں 13 ماہ سے آگے کی طرف جانے والی اسرائیلی جنگ نے اپنے ملک کے بنکوں کو بھی اس ضمن میں چھانٹیوں کی حالت کو پہنچا دیا ہے کہ کوئی بین الاقوامی ادارہ کس اسرائیلی بنک کے ساتھ ڈیل کرے اور کس کے ساتھ ڈیل نہ کرے۔
۔2020 میں اقوام متحدہ نے ان کمپنیوں کو اپنی فہرست میں شامل کیا تھا جو فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں قائم کی گئی ناجائز یہودی بستیوں کے ساتھ منسلک ہیں۔
اب نوبت یہ ہےاے ایکس اے کے ترجمان نے اس بارے میں صاف کہہ دیا ہے کہ اس نے ان بینکوں میں سرمایہ کاری نہیں کی ہے جن کو انسانی حقوق سے متعلق کارکنوں نے نشانہ بنایا ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کی فہرست میں وہ معیارات شامل نہیں جنہیں اے ایکس اے سرمایہ کاری کے فیصلوں کے لیے پیش نظر رکھتا ہے۔
اسرائیل میں 2023 کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری 29 فیصد تک نیچے گرگئی ہے۔ اقوام متحدہ کے تجارت اور ترقی سے متعلق اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا یہ کمزور ترین گراف 2016 کے بعد سے کم ترین سطح پر ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کےاسی ادارے کے 2024 کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق کریڈ ریٹنگ ایجنسیز کا کہنا ہے کہ جنگ نے اسرائیل میں سرمایہ کاری کو تشویش کی حد تک متاثر کیا ہے۔
یہ سب اس کے باوجود ہے کہ امریکہ اس غزہ جنگ میں مسلسل سب سے بڑا فوجی و مالیاتی مددگار ہے اور ہر طرح سے اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس کے باوجود سپین، ناروے اور آئر لینڈ نے اپنا فیصلہ خود کیا ہے اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے۔ جنگ کے بارہویں تیرہویں مہینے میں تو فرانس کے صدر نے بھی کہہ دیا ہے کہ اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی بند کرنی چاہیے۔ جب بین الاقوامی سیاست کی بات آتی ہے تو یہ حکومتوں پر واضح ہونا چاہئے کہ وہ ایک واضح لائن اختیار کریں۔
لندن بزنس سکول میں معاشیات کے پروفیسر رچرڈ پورٹس کا کہنا ہے کہ نجی فرموں پر بوجھ ڈالنا اسرائیل میں یہ کہاں جا کر ختم ہوگا۔ اسے ضرور دیکھنا ہو گا۔