Monday, December 23, 2024
Homeہندوستانسرسید ڈے: سرسید کی حکمت کی عصر حاضر کے چیلنجوں سے نمٹنے...

سرسید ڈے: سرسید کی حکمت کی عصر حاضر کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے آج بھی معنویت و اہمیت ہے: مظفر علی

علی گڑھ: سرسید نے انگریزوں کی ملازمت کی اور اسی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی رہنمائی کی کہ وہ جدید تعلیم حاصل کریں اور دیگر ترقی یافتہ کمیونٹیز کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔ سرسید کی ہمہ جہت شخصیت کے یہ دو ایسے پہلو ہیں جوانھیں حقیقی رہنما بناتے ہیں اور عصر حاضر کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے آج بھی ان کی معنویت و اہمیت کو ثابت کرتے ہیں
ان خیالات کا اظہار ممتاز فلم ساز، مصنف اور فنکار مظفر علی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں منعقدہ جشن یوم سرسید سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اے ایم یو کے بانی اور جدید ہندوستان کے معماروں میں سے ایک سر سید احمد خاں کے 207 ویں یوم پیدائش کے موقع پر یہ تقریب اے ایم یو کے گلستان سید میں منعقد کی گئی۔ مظفر علی نے کہا کہ اگر سرسید 1857 کی جدوجہد اور بغاوت کے اسباب نہ لکھتے تو ہندوستانیوں اور برطانوی حکومت کے درمیان تعلقات تلخ ہی رہتے۔ انہوں نے کہا کہ سرسید نے ہندوستان اور برطانوی سلطنت کے درمیان مکالمے کا راستہ کھولا اور بے شمار نشیب و فراز کے باوجود اس سے دونوں فریقوں میں مفاہمت کی راہ ہموار ہوئی۔ مظفر علی نے کہا کہ سرسید نے مغلوں کے دربار اعلیٰ کو چھوڑنے اور برطانوی خدمات میں شامل ہونے سے لے کر اپنے دور کی رفتار کو بخوبی سمجھ لیا تھا، اور پھر اپنے ہم مذہبوں اور بالعموم ہندوستانی لوگوں کی تعلیمی اور سماجی ترقی کی راہ ہموار کرنے کے لیے کام کیا اور یہی چیز ان کی شخصیت کو نیا زاویہ عطا کرتی ہے۔
مہمان اعزازی محترمہ اسنیہ لتا شریواستو (سبکدوش آئی اے ایس آفیسر اور سابق سکریٹری، وزارت قانون و انصاف اور سکریٹری جنرل، لوک سبھا) نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ سرسید کے پاس خواتین کی تعلیم سے لے کر سائنسی علوم تک تعلیمی میدان میں انقلاب لانے کا اتنا بڑا وژن تھا،جو اس تاریخی ادارے کے قیام کے سو سال سے زائد عرصے بعد بھی اہمیت رکھتا ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی کے مختلف نظاموں کی جدید کاری پر زور دیا، جو نہ صرف موجودہ دور کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق ہوگا بلکہ اس میں مستقبل کے مسائل سے نمٹنے کا بھی مادّہ ہوگا۔ محترمہ شریواستو نے طلبہ پر زور دیا کہ وہ اطمینان کی کیفیت میں نہ رہیں بلکہ سرگرم رہ کر محنت کریں اور صبح جلدی اٹھنے کی عادت اپنائیں، جو زندگی کو صحت منداور مستعد بنانے کے لئے روحانی طاقت فراہم کرتی ہے۔
مہمان اعزازی جیہ ورما سنہا (سبکدوش آئی آر ٹی ایس اور سابق چیئرپرسن، ریلوے بورڈ آف انڈیا) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سرسید سماجی اصلاحات، سماجی انصاف، خواتین کی تعلیم اور ناخواندگی کے خاتمے کے لیے پرعزم تھے۔ آج ہم تعلیم میں سرسید کی خدمات کا جشن منا رہے ہیں، ان کے نظریات پر گفتگو کررہے ہیں اور اس پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ عصری چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب میں یہاں کے طلبہ کو دیکھتی ہوں، تو یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ آپ مستقبل کے رہنما، تبدیلی کے نقیب اور سرسید کی میراث کے مشعل بردار ہیں۔ اے ایم یو میں آپ کی تعلیم آپ کی کامیابی کی راہ ہموار کرے گی اور آپ کو معاشرے میں تبدیلی کا نقیب بننے کے لیے بااختیار بنائے گی“۔ انہوں نے کہا کہ حقیقی کامیابی صرف ہماری پیشہ ورانہ کامیابیوں میں ہی نہیں بلکہ معاشرے کی بہتری اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی بہتری کے لئے ہماری کاوشوں میں مضمر ہے۔ اے ایم یو کے طلبہ اپنی فکر، ثقافت اور تجربے کے تنوع کے ساتھ ایک ترقی یافتہ ہندوستان کے مستقبل کی نمائندگی کرتے ہیں۔
دہلی پولیس کے اسپیشل کمشنر (ٹریفک)، مصنف اور اے ایم یو سے فارغ التحصیل اجے چودھری آئی پی ایس نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اے ایم یو محض عمارتوں کا ڈھانچہ نہیں ہے، بلکہ سماجی خدمت کے جذبہ سے پروان چڑھنے والا ادارہ ہے جو ملک اور سماج کی رہنمائی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہندو روایات کو استعمال کرنے کی اجازت دی جاتی تو سرسید کو ایک اوتار قرار دیا جاتا جس نے معاشرے میں متعدد زاویوں سے مثبت تبدیلیوں کی راہ ہموار کی۔ چودھری نے اے ایم یو میں اپنی طالبعلمی کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہاکہ آج وہ جو کچھ بھی ہیں اس میں ان کے والد، والدہ اور بڑے بھائی کے ساتھ ہی اے ایم یو کا بہت بڑا کردار ہے جہاں انھوں نے اپنی زندگی کے بہترین دن گزارے اور 1990 کے برسوں میں بھی اطمینان و سکون کے ساتھ یہاں مقیم رہے۔
اپنے صدارتی کلمات میں اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے سرسید کے وژن، مشن اور علم و تحقیق کے تئیں ان کی مسلسل جستجو کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے ناقدانہ فکر و ذہن کی آبیاری پر سرسید کے وژن کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ اے ایم یو کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنایا جارہا ہے۔ میسیو اوپن آن لائن کورسز (موکس) پروگرام کے تحت 31 نئے کورسز لانچ کئے گئے ہیں۔ پروفیسر خاتون نے سرسید کے جمہوری کام کاج کے اندر کی بھی ستائش کی اور اسے معیاری تعلیم فراہم کرنے، اختراع کو فروغ دینے، انٹرپرینیورشپ اور انکیوبیشن سپورٹ کے اے ایم یو کے عزم کے ساتھ جوڑا۔ انہوں نے یونیورسٹی کے طلبہ، اساتذہ اور دیگر افراد کی لگن، محنت اور یونیورسٹی کو حقیقی معنوں میں قومی اہمیت کا حامل ادارہ بنانے کی کوششوں پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی نے نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2020 کی سفارشات کو نافذ کیا ہے اور یہ خوشی کی بات ہے کہ ہمیں نیک سے اے پلس سرٹیفیکیشن ملا اور این آئی آر ایف نے ہندوستانی یونیورسٹیز میں آٹھویں رینک عطا کی ہے۔
نیویارک، امریکہ سے آن لائن خطاب کرتے ہوئے اس سال کے بین الاقوامی سر سید ایکسیلینس ایوارڈ سے سرفراز پروفیسر فرانسس ڈبلیو پریچیٹ نے اس باوقار ایوارڈ کے لیے اپنے انتخاب پر اے ایم یو کا شکریہ ادا کیا۔ غالب کے ایک شعر کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ سرسید اپنے اردگرد رونما ہونے والے واقعات کو باریکی سے سمجھتے تھے اور پھر ان واقعات کا انتہائی تعمیری انداز میں جواب دیتے تھے۔ انہوں نے طلبہ پر زور دیا کہ وہ زندگی میں ہمیشہ مثبت رہیں اور معاشرے کو امن ورواداری کا گہوارہ بنانے کے لیے اپنی پوری کوشش کریں۔
غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی کی جانب سے قومی سرسید ایکسی لینس ایوارڈ قبول کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا کہ قومی اہمیت کے حامل ایک ادارے کی جانب سے باوقار ایوارڈ حاصل کرنا ایک تاریخی لمحہ ہے۔
سر سید احمد خاں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے پروفیسر زہرہ محسن (شعبہ امراض نسواں، اے ایم یو) نے کہا کہ سرسید اپنے وقت سے بہت آگے تھے۔انہوں نے تعلیم و صحت کی اہمیت کو محسوس کیا اور اس حوالے سے اپنی ساری زندگی انھوں نے ہندوستانی عوام کے لئے وقف کردی۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم بہترین میراث ہے جسے والدین اپنے بچوں کے لیے چھوڑ سکتے ہیں اور سرسید کی اس میراث کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔
پروفیسر شافع قدوائی نے سرسید کے وژن اور مشن کی معنویت پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرسید کی شخصیت کی وضاحت دو خوبیوں کے حوالے سے کی جا سکتی ہے: ایک ہمدردی کا جذبہ اور دوسرے رہنمائی کا مزاج، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے معروف مصنفہ قرۃ العین حیدر نے انھیں خواجہ خضر کا خطاب دیا، جو بھٹکے ہوئے لوگوں کو راستہ دکھاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سرسید نے 1857 کے بعد کے مشکل حالات میں کمیونٹی کو راستہ دکھانے کا کام کیا۔ انھوں نے تعلیم کو ہر قسم کی ترقی کا ہتھیار بنایا اور اس کی ترویج کی۔
اس موقع پر یونیورسٹی کے طلبہ زنیرہ حبیب علوی اور صارم ایوبی نے بھی سرسید احمد خاں کے فلسفہ اور مشن پر تقریریں کیں۔
مسٹر مظفر علی اور پروفیسر نعیمہ خاتون نے انگریزی، ہندی اور اردو میں کل ہند مضمون نویسی مقابلے کے فاتحین کو انعامات سے نوازا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی پوسٹ گریجویٹ طالبہ مہوش خان نے انگریزی میں آل انڈیا مضمون نویسی کے مقابلے میں پہلا انعام جیتا، جبکہ راجیو گاندھی نیشنل یونیورسٹی آف لاء، پٹیالہ، پنجاب میں بی اے ایل ایل بی کی طالبہ صاحبہ مہر اور ساسترا ڈیمڈ یونیورسٹی، تھنجاور، تمل ناڈو کے طالب علم آشوتوش کمار کو بالترتیب دوم اور سوم انعام دیا گیا۔
ہندی مضمون نویسی میں تینوں انعامات اے ایم یو کی طالبات کو ملے، جن میں فردوس، پی ایچ ڈی اسکالر کو پہلا انعام، سامعہ اکرم (بی اے) کو دوم اور شائستہ ثنا (پی ایچ ڈی) کو سوم انعام دیا گیا۔
اے ایم یو کی پی ایچ ڈی اسکالر نگہت نے اردو زبان میں پہلا انعام جیتا، جب کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے پی ایچ ڈی اسکالر شاہد جمال کو دوم انعام اور اے ایم یو کے پی جی طالب علم مصفی الرحمان کو سوم انعام دیا گیا۔
اس موقع پر مسٹر مجیب اللہ زبیری (کنٹرولر امتحانات)، پروفیسر محمد محسن خان (فنانس آفیسر)، پروفیسر محمد وسیم علی (پراکٹر) سمیت دیگر معززین موجود تھے۔ قبل ازیں اے ایم یو کے رجسٹرار مسٹر محمد عمران نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ ڈین اسٹوڈنٹس ویلفیئر پروفیسر رفیع الدین نے اظہار تشکر کیا۔
پروگرام کی نظامت ڈاکٹر فائزہ عباسی اور ڈاکٹر شارق عاقل نے کی۔
یوم سرسید پر دن کی سرگرمیوں کا آغاز یونیورسٹی مسجد میں نماز فجر کے بعد قرآن خوانی اور سرسید کی قبر پر چادر پوشی سے ہوا۔
اس کے بعد سرسید اکیڈمی میں منعقدہ تقریب میں وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے مسٹر مظفر علی، پروفیسر ایم شافع قدوائی، ڈائریکٹر، سرسید اکیڈمی اور دیگر معززین کے ساتھ الطاف حسین حالی کی تصنیف ”حیات جاوید“ کے جدید ایڈیشن، میر ولایت حسین کی ”آپ بیتی یا ایم اے او کالج کی کہانی میر ولایت حسین کی زبانی“، ”سر سید کا قیام میرٹھ“ از معصوم مرادآبادی، ”سر سید کا قیام مراد آباد“ از ڈاکٹر راحت ابرار، ”سر سید کا قیام بنارس“ از ڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی، ”سرسید کی بین الاقوامی بصیرت“ از پروفیسر سعود عالم قاسمی اور تہذیب الاخلاق کے خصوصی سرسید نمبر کا اجراء کیا۔

RELATED ARTICLES
- Advertisment -
Google search engine

Most Popular

Recent Comments