غزہ:اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے وسطی علاقے دیر البلح میں شہدائے اقصیٰ ہسپتال کے کھلے ہوئے حصے پر نقل مکانی کرنے والے افراد کے خیموں پر 3 حملے کیے۔ العربیہ کے نمائندے کے مطابق ان حملوں میں درجنوں افراد جاں بحق اور زخمی ہو گئے۔ حملے کے نتیجے میں کئی خیموں میں آگ لگ گئی۔
اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کے شمال میں اپنی مداخلت کا دائرہ وسیع کر لیا۔ اسرائیلی فوج کے ٹینک غزہ شہر کے شمالی حصوں کی جانب پہنچ گئے۔ یہاں کی آبادی کا کہنا ہے کہ اس دوران میں الشیخ رضوان کے محلے میں گولہ باری کی گئی۔ اس کے نتیجے میں بہت سے خاندان اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے ہسپتال کے کمپاؤنڈ کے اندر کمان مرکز سے کام کرنے والے مسلح عناصر کو بم باری کا نشانہ بنایا۔ فوج نے حماس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ شہری تنصیبات مثلا ہسپتالوں کو اپنے عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ حماس اس الزام کو مسترد کرتی ہے۔
مقامی آبادی نے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کے شمال میں بيت حانون، جباليا اور بیت لاہیا کے شہروں کو غزہ شہر سے عملی طور پر الگ کر دیا ہے۔ ان کے بیچ نقل و حرکت پر پابندی لگا دی ہے۔ البتہ مذکورہ تین شہروں سے صرف ان گھرانوں کو اسرائیلی حکام سے اجازت نامہ حاصل کر کے جانے کی اجازت ہو گی جو علاقہ خالی کرنے کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے وہاں سے کوچ کریں گے۔
غزہ کے شمال میں بڑا اسرائیلی آپریشن شروع ہونے کے بو روز بعد غزہ کی پٹی میں سرکاری میڈیا بیورو نے بتایا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں تقریبا 300 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ مزید یہ کہ شہریوں کے گھروں اور نقل مکانی کرنے والوں کے قیام کی جگہوں پر اسرائیلی بم باری کا مقصد آبادی کو حتمی طور پر غزہ سے کوچ کرنے پر مجبور کر دینا ہے۔ اسرائیل اس امر کی تردید کرتا ہے۔
کل اتوار کے روز طبی عملے نے بتایا کہ اسرائیلی ٹینکوں کی گولہ باری کے نتیجے میں غزہ پٹی کے وسط میں النصیرات کیمپ میں واقع ایک اسکول میں ٹھہرے ہوئے 22 فلسطینیوں کی جان لے لی جب کہ 80 افراد زخمی بھی ہوئے۔ مرنے والوں میں 15 خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ میں انسانی امور کی سکریٹری جنرل اور ہنگامی حالات میں امداد کی نائب رابطہ کار جویس مسویا کے مطابق “غزہ کے شمال میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ خوف ناک ہے اور الفاظ اسے بیان نہیں کر سکتے”۔ انھوں نے مزید بتایا کہ “اسرائیلی فوج اپنے حملوں میں شدت لا رہی ہے۔ ہسپتال اپنے مریضوں کو باہر نکالنے پر مجبور ہو گئے اور ضروری امداد ختم ہو رہی ہے۔ لوگ گھروں کو چھوڑنے پر مجبور کیے جا رہے ہیں اور امداد منقطع ہونے سے ہو بھوک سے پریشان ہیں۔ ان شرم ناک چیزوں کو ختم ہو جانا چاہیے”۔
اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق تقریبا دو ہفتوں سے غزہ کے شمال میں کوئی غذائی امداد داخل نہیں ہو سکی۔ اس حوالے سے امریکی نائب صدر کملا ہیرس کا کہنا ہے کہ ضرورت مند افراد تک امداد پہنچنے کا عمل آسان بنانے کے لیے اسرائیل کو فوری مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔ کملا ہیرس کا کہنا ہے کہ شہریوں کا تحفظ ضروری ہے اور انھیں غذا، پانی اور دوا حاصل ہونا چاہیے، بین الاقوامی انسانی قوانین کا احترام کیا جانا چاہیے۔
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اتوار کے روز غزہ کی پٹی میں اسرائیلی حملوں میں کم از کم 34 افراد جاں بحق ہو گئے۔
ادھر جبالیا کی آبادی میں بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے “ہم کوچ نہیں کریں گے، مر جائیں گے مگر کوچ نہیں کریں گے”۔
غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملوں کے آغاز کے ایک برس بعد صحت کے شعبے کے حکام کا کہنا ہے کہ اب تک ان حملوں میں 42 ہزار فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ مزید یہ کہ لاکھوں افراد غزہ کی پٹی کے تباہ حال شمالی علاقوں میں واپس لوٹ چکے ہیں۔
غزہ کی پٹی کے شمال میں بیت لاہیا کے ایک باشندے نے بتایا کہ “قابض فوج گھروں کو دھماکوں سے اڑا رہی ہے اور لوگوں کو کھانے کو کچھ نہیں مل رہا ہے، وہ اس خوف سے اپنے گھروں کے اندر محصور ہیں کہ کسی بھی لمحے ان پر راکٹ آ پڑیں گے”۔
اسرائیلی فوج نے گذشتہ روز جاری ایک بیان میں بتایا کہ غزہ کی پٹی کے مختلف حصوں میں پھیلی ہوئی اس کی افواج نے گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے اندر تقریبا 40 اہداف پر حملے کیے اور درجنوں مسلح عناصر کو ہلاک کر دیا۔
ادھر حماس اور جہادِ اسلامی کے عسکری ونگوں اور دیگر چھوٹے گروپوں نے بتایا ہے کہ ان کے جنگجوؤں نے جبالیا اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ٹینک شکن راکٹوں اور مارٹر گولوں سے اسرائیلی فوج پر حملے کیے۔