نئی دہلی : جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات کے نتائج آ چکے ہیں۔ نیشنل کانفرنس (این سی) اور کانگریس مخلوط حکومت بنانے جا رہے ہیں۔ اتحاد کو 48 سیٹیں ملی ہیں۔ نیشنل کانفرنس کو 42 اور کانگریس کو 6 سیٹیں ملیں۔29 سیٹوں پر آگے چل رہی بی جے پی نے 29 پر کامیابی حاصل کی ہے۔ پی ڈی پی کو 3 سیٹیں ملیں۔ ایک ایک سیٹ عام آدمی پارٹی اور جے پی سی کے حصے میں آئی۔ 7 آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوئے۔ 90 نشستوں والی اسمبلی میں اکثریتی تعداد 46 ہے۔ عمر عبداللہ جموں و کشمیر کے اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ عمر عبداللہ نے دو سیٹیں بڈگام اور گاندربل جیتیں۔جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی سری گفوارہ بجبہاڑہ سیٹ سے ہار گئیں۔ مجھے عوام کا فیصلہ قبول ہے۔ دوسری طرف بی جے پی صدر رویندر رینا نوشہرہ سیٹ سے ہار گئے۔ شکست کے بعد انہوں نے ریاستی صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔جموں و کشمیر میں 18 ستمبر سے یکم اکتوبر تک 3 مرحلوں میں 63.88 فیصد ووٹنگ ہوئی۔ 10 سال پہلے 2014 میں ہونے والے انتخابات میں 65 فیصد ووٹنگ ہوئی تھی۔ اس بار 1.12 فیصد کم ووٹنگ ہوئی۔
نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ عمر عبداللہ جموں وکشمیر کے اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے انہوں نے کہا کہ لوگوں نے اپنا فیصلہ دکھا کر ثابت کر دیا ہے کہ 5 اگست 2019 کو مرکزی حکومت نے جو کچھ کیا وہ انہیں قابل قبول نہیں تھا موصوف صدر نے ان باتوں کا اظہار منگل کے روز یہاں گپکار میں واقع اپنی رہائش گاہ پر نامہ نگاروں کے ساتھ بات کرنے کے دوران کیا۔ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ بے روز گاری، گراں بازاری، نوجوانوں میں منشیات کی بدعت کے پھیلائو جیسے مشکلات کو دور کرنے کے لئے مزید کام کرنا ہے‘۔ یہ کہنے پر کہ آیا جموں وکشمیر میں سیاسی صورتحال بدل سکتی ہے، کے جواب میں انہوں نے کہا: ’بے شک، یہاں اب صرف لیفٹیننٹ گورنر اور ان کے چار ساتھی نہیں ہوں گے اب نوے ارکان اسمبلی ہوں گے جو لوگوں کے مسائل کو حل کریں گے‘۔ انہوں نے کہا:’میں تمام لوگوں کا شکر گذار ہوں ان لوگوں کا بھی جنہوں نے الیکشن میں آزادنہ طور پر حصہ لیا‘۔ دریں اثنا نیشنل کانفرنس کے کارکنوں نے پارٹی صدر کی گپکار رہائش گاہ پر مٹھائیں تقسیم کرکے پارٹی کی جیت پر جشن منایا۔
محبوبہ مفتی کا بڑا بیان
پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر کے لوگوں نے ایک مضبوط حکومت اور بی جے پی کو دور رکھنے کے لئے نیشنل کانفرنس- کانگریس الائنس کو ووٹ دیا انہوں نے کہاکہ میں جموں وکشمیر کے لوگوں کو مبارکباد دیتی ہوں جنہوں نے ایک مضبوط حکومت کے لئے ووٹ دیا۔
ہریانہ کی مہابھارت
بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہریانہ کے انتخابی مہابھارت میں حکومت مخالف لہر کے حوالے سے سیاسی پنڈتوں کی پیشین گوئیوں کو ٹھکراتے ہوئے تاریخی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور مسلسل تیسری بار جیت حاصل کی۔ اس بار، بی جے پی، جس نے پچھلی اسمبلی میں ریاست میں مخلوط حکومت چلائی، 90 رکنی اسمبلی میں 48 سیٹوں پر واضح اکثریت حاصل کرکے دس سال بعد اقتدار میں واپسی کے اہم اپوزیشن کانگریس کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔
براہ راست مقابلے میں بی جے پی نے کانگریس کو شکست دی اور کانگریس صرف 37 سیٹوں تک ہی پہنچ سکی۔ سال 2019 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو 40 اور کانگریس کو 31 سیٹیں ملی تھیں۔ کچھ عرصہ قبل بی جے پی سے اتحاد توڑ کر الیکشن لڑنے والی جن نائک جنتا پارٹی اس بار اپنا کھاتہ بھی نہیں کھول سکی، جبکہ گزشتہ انتخابات میں پارٹی کو 10 سیٹیں ملی تھیں۔ انڈین نیشنل لوک دل کو اس بار دو سیٹیں (ڈبوالی اور رانیہ) ملی ہیں۔ آزاد امیدواروں نے گنور، بہادر گڑھ اور حصار تین سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔
ہریانہ کے نتائج سے کانگریس حیران نظر آئی، پارٹی نے ان نتائج کو غیر متوقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں قبول نہیں کیا جاسکتا۔ کانگریس کے چیف ترجمان جے رام رمیش اور پون کھیڑا نے پارٹی ہیڈکوارٹر میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہریانہ میں پارٹی سے جیت چھین لی گئی ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) میں بے ضابطگیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارٹی اس کے خلاف الیکشن کمیشن سے پورے حقائق کے ساتھ رجوع کرے گی۔ بی جے پی نے اپنی جیت کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اس کی حکومت کی دس سالہ گڈ گورننس اور محنت کا نتیجہ ہے۔ بی جے پی لیڈر انل وج نے کہا کہ یہ نتائج پوری طرح سے متوقع ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے کنوینر اور دہلی کے سابق وزیر اعلی اروند کیجریوال نے کہا ہے کہ ہریانہ کے انتخابات ایک سبق سکھاتے ہیں کہ کسی کو زیادہ اعتماد نہیں ہونا چاہئے۔ پارٹی لیڈر اور دہلی کے وزیر گوپال رائے نے کہا کہ ہم پہلے ہی محسوس کر رہے تھے کہ ایگزٹ پول کے تخمینے زمینی حقیقت سے میل نہیں کھاتے۔