غزہ:غزہ میں اسرائیل کی جنگ پوری تباہ کاریوں سے جاری ہے۔ فلسطینی تعلیمی سال ماہ ستمبر میں شروع ہوتا ہے، پیر کے روز سے شروع ہے مگر اس بار تعلیمی سال کا پہلا دن اس طرح آیا ہے کہ اس سال غزہ کے تمام سکول تباہ و برباد کیے جا چکے ہیں یا بند ہیں۔ جبکہ جنگ بندی کی کوئی علامت سامنے نہیں ہے۔
پیر کے روز بجائے اس کے کہ کوئی ایسا اعلان سامنے آتا کہ فلسطینی اپنے بچوں کو متبدل سکولوں میں بھیج سکیں گئے یا ان کے پناہ گزین کیمپوں میں ہی بچوں کے لیے عارضی سکول قائم کیے گئے۔ یہ اعلان کیا گیا ہے کہ شمالی غزہ ایک بار پھر جہاں رہ رہے ہیں وہاں سے نکل جائیں کہ اسرائیلی فوج نے اس علاقے کو بمباری کا ایک مرتبہ پھر نشانہ بنانا ہے۔
بے گھر فلسطینیوں کو غزہ میں ایسے اعلانات آئے روز سننا پڑتے ہیں۔ لیکن اس اعلان کی سنگینی اس لیے زیادہ ہے کہ غزہ میں نئے تعلیی سال کے آغاز کے باوجود کسی جگہ سے فلسطینی بچوں کا قلم اور کتاب سے تعلق نہ جڑنے دینے کی اسرائیلی حکمت عملی ہی کار فرما ہے۔
فلسطینی شہری اپنی بے گھری کے اس ماحول میں بار بار نقل مکانی کرنے اور کہیں اور کجا کر بے گھری اختیارکرنے کاہہ دیا جاتا ہے وہ اپنے بچوں کے ساتھ بے بسی میں اگلی جگہ پہنچتے ہیں تو کچھ دن بعد یہی اعلان اور بمباری ان کے تعاقب میں وہاں موجود ہوتے ہیں۔
پیر کے روز اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ شمالی غزہ سے اس پر راکٹ داغے گئے ہیں ، اس لیے اس جگہ کو بمباری سے ایک بار پھر ہموار کرنا ضوری ہے۔ام ذکی کا پندرہ سالہ بیٹا جسے کیال تھا کہ شاید وہ آج کسی خیمے میں بنے سکول مین ہی جا سکے گا اسے صبح سویرے اٹھنے پر دیر البلاح میں اس کی عارضی پناہ گاہ میں کہا گیا کہ وہ ایک کلو میٹر دور سے پانی بھر کا لائے۔ تاکہ خیمے میں پینے کا پانی دستیاب ہو سکے۔
تعلیمی سال کا پہلا دن بچوں کے لیے بطور خاص ایک خوشی کا پیغام لاتا تھا کہ اس روز وہ اگلی جماعت میں جانے کی خوشخبری سنانے کی پوزیشن میں آتے ہیں۔ ان کے والدین کے لیے بھی شادمانی کا احساس ہوتا تھا مگر اب کے برس تعلیمی سال نے بمباری کی گھن گرج اور بارود کی بارش کے نتیجے میں تباہی ہو رہی ہیں اور اب محض چند ہفتے میں جنگ کا نیا سال شروع ہونے کے لیے بے قرار ہے تاکہ غزہ کے فلسطینیوں کے لیے زیادہ تباہی اور زیادہ بربادی لا سکے۔
پانچ بچوں کی ماں نے اس بارے میں ‘ رائٹرز’ سے بات کرتے ہوئے کہا ‘ ہم امید کرتے ہیں یہ جنگ یہ بمباری اب بس کر دے گی اور ہم اپنے بچوں میں سے کسی کو خاندان میں سے کسی اور کو کھونے سے بچ جائیں گے۔
تعلیمی سال کے آغاز کے موقع پر وزارت تعلیم کی طرف سے کہا گیا ہے کہ 90 فیصد سکول اس حالت میں نہیں رہے ہیں کہ وہ بچوں کے لیے تعلیم کا ذریعہ بن سکیں۔ ان سکولوں کو اسرائیلی فوج نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔یہ سلسلہ سات اکتوبر سے مسلسل جاری ہے۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی ‘ انروا’ جو غزہ میں تقریباً نصف سکولوں کو چلاتی ہے اس بار خیموں میں ہی سہی کچھ سکولوں کوشروع کر سکے گی، سب بے گھر فلسطینیوں اور ان کے بچوں کی نگاہیں اسی طرف ہے۔ بصورت دیگر تو مشکل ہو گا کہ فلسطینی بچے اپنے تعلیم کو پہنچنے والی زک کا کچھ ازالہ کر سکیں ۔
غزہ میں بے گھری کا شکار لاکھوں فلسطینی دیکھ رہے ہیں کہ ان کے بچوں کا تعلیمی نقصان اب تعداد یا نسبت تناسب کے ساتھ نہیں ہو رہا ہے بلکہ فلسطینیوں کی پوری نسل کو تعلیم سے دور اور ضائع ہوتا دیکھ رہے ہیں۔
‘انروا’ کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن جولیٹی ٹومہ نے اس بارے میں بین الاقوامی خبر رساں اداے سے بات کرتے ہوئے کہا’ خطرہ ہے کہ اس صورت میں غزہ کے بچے مزدوری یا مزاحمتی گروپوں میں بھرتی ہونا شروع ہو جائیں گے۔
یا ان کی شادیاں کر کے تعلیم مکمل ہونے سے پہلے ہی خاندان مکمل کرنے کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔۔ ان کے مطابق 625000 بچے سکولوں کے لیے رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔ لیکن ان کے لیے کلاس رومز نہیں ہیں۔ وزارت تعلیم کے مطابق 58000 کی تعداد میں چھ سالہ کی رجسٹریشن پہلے درجے کی تعلیم یعنی پہلی جماعت میں داخلے کے لیے ہے۔
پچھلے ماہ ‘ انروا ‘ نے بچون کےلیے 45 خیموں میں ٹیچرز کی مدد سے بچوں کی کھیلوں کے ساتھ ساتھ ڈراموں کا اہتمام کیا تھا۔ ان سرگرمیوں میں موسیقی وغیرہ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا تاکہ بچوں کو صدمے کے ماحول سے الگ کیا جائے۔
فلسطینی بچوں کے لیے تعلیمی سہولیات کا حال کیا اس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ غزہ کی 23 لاکھ کے قریب کی آبادی کو دس بار تک بے گھر ہونے کے لیے انخلا کا حکم اسرائیلی فوج دے چکی ہے۔