ڈھاکہ:بنگلہ دیش کے نوبل انعام یافتہ محمد یونس نے کہا کہ وہ ملک کی نئی عبوری حکومت کی سربراہی کے لیے تیار ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق محمد یونس نے حسینہ واجد کے وزرات عظمیٰ سے استعفے اور ملک سے چلے جانے کے ایک دن بعد منگل کو عبوری حکومت سنبھالنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
بنگلہ دیش میں مائیکرو فنانسنگ کے بانی 84 سالہ ڈاکٹر محمد یونس کو لاکھوں افراد کو غربت سے نکالنے کی بنیاد پر سراہا جاتا ہے اور بنگلہ دیش کے عوام میں ان کا خاص احترام پایا جاتا ہے۔
طلبہ نے عبوری حکومت کی سربراہی کے لیے بینکر محمد یونس کا نام تجویز کیا ہے۔ محمد یونس نے قرضے دینے والا ‘گرامین بینک’ قائم کیا تھا۔ اس بینک کے ذریعے بنگلہ دیش میں غربت کے خاتمے کے لیے محمد یونس کی خدمات کے اعتراف میں انہیں 2006 میں نوبیل امن انعام دیا گیا تھا۔
محمد یونس نے اُن دیہی علاقوں میں مجموعی طور پر تقریباً 10 کروڑ ڈالر کے قرضے دیے تھے جنہیں عام طور پر بینک نظر انداز کر دیتے ہیں۔ گرامین بینک کے ماڈل پر دنیا میں ترقی یافتہ ممالک سمیت دیہی علاقوں میں چھوٹے کاروبار کے لیے قرضوں کی فراہمی کے کئی منصوبے شروع ہوئے۔ انہوں نے امریکہ میں بھی ایسا ہی ایک ادارہ قائم کیا۔
اپنی بڑھتی ہوئی کامیابیوں کے ساتھ 2007 میں محمد یونس نے اپنی سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کی۔ تاہم 84 سالہ محمد یونس کا سیاسی سفر بہت مختصر رہا۔ لیکن محمد یونس کے سیاسی مقاصد سامنے آنے سے شیخ حسینہ بہت برہم ہوئیں اور ان پر ‘غریبوں کا خون چوسنے’ کا الزام بھی عائد کیا۔
بنگلہ دیش اور اس کے ہمسایہ بھارت سمیت بعض ممالک دنیا میں مائیکرو کریڈٹنگ (چھوٹے قرضوں) پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ ان کے عوض غریبوں سے بہت زیادہ سود وصول کیا جاتا ہے۔ لیکن محمد یونس کے مطابق ان کے فراہم کیے گئے قرضوں پر لیے جانے والا سود ترقی پذیر ممالک کی شرح سود سے کم ہے۔
شیخ حسینہ کی حکومت نے 2011 میں محمد یونس کو گرامین بینک کی سربراہی سے برطرف کردیا تھا۔ اس اقدام کے لیے حکومت نے محمد یونس کی عمر کو بنیاد بنایا تھا جو اس وقت 73 برس تھی۔ حکومت کا کہنا تھا کہ یونس ریٹائرمنٹ کے لیے متعین قانونی حد 60 برس عبور کرچکے ہیں۔ اس اقدام کے خلاف ہزاروں بنگلہ دیشیوں نے ہاتھوں کی زنجیر بنا کر احتجاج کیا تھا۔
رواں برس جنوری میں محمد یونس کو لیبر قوانین کی خلاف ورزی پر چھ ماہ قید کی سزا دی گئی تھی۔ بعد ازاں جون میں محمد یونس اور 13 دیگر افراد پر تقریباً 20 لاکھ ڈالر کی خورد برد کے الزام میں فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔
اگرچہ کسی بھی کیس میں محمد یونس کو قید نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم انہیں کرپشن سمیت دیگر الزامات کے تحت 100 مقدمات کا بھی سامنا تھا۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ سے ایک انٹرویو میں محمد یونس نے ان تمام الزامات کو ‘من گھڑت’ قرار دیتے ہوئے ان کی تردید کی تھی۔
رواں برس جون میں شیخ حسینہ پر تنقید کرتے ہوئے محمد یونس نے کہا تھا ’’بنگلہ دیش میں سیاست باقی نہیں رہی۔ وہاں صرف ایک پارٹی کام کر رہی ہے اور اس کا ہر چیز پر قبضہ ہے۔ جو کرتی ہے وہی پارٹی کرتی ہے اور اسی طرح الیکشن بھی کرا لیتی ہے۔‘‘
شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال پر پیر کو بھارتی چینل ’ٹائمز ناؤ‘ سے بات کرتے ہوئے محمد یونس کا کہنا تھا کہ 1971 میں پاکستان سے آزادی کے بعد یہ ہمارا دوسرا یومِ آزادی ہے۔
محمد یونس کے ترجمان کے مطابق وہ اس وقت پیرس میں ایک چھوٹے میڈیکل پراسیجر کے لیے موجود ہیں۔ ترجمان نے اس بات کی تصدیق بھی کی ہے کہ محمد یونس نے شیخ حسینہ کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ کی جانب سے عبوری حکومت کا اعلیٰ ترین مشیر بننے کی درخواست قبول کرلی ہے۔
محمد یونس 1974 میں یونیورسٹی آف چٹاگانگ میں معیشت کے استاد تھے۔ یہ وہی دور تھا جب بنگلہ دیش بدترین قحط سالی کا شکار تھا جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسی دور میں محمد یونس نے کثیر آبادی والے اپنے ملک میں بہتری کے لیے راستے تلاش کرنا شروع کیے تھے۔
انہیں یہ موقع اس وقت ملا جب انہوں نے اپنی یونیورسٹی کے قریبی گاؤں میں ایک خاتون کو مہاجنوں سے زیادہ شرحِ سود پر لیا گیا معمولی قرض ادا کرتے ہوئے اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھوتے دیکھا۔
نوبل انعام وصول کرنے کے موقعے پر کی گئی تقریر میں محمد یونس نے کہا تھا کہ دیہی علاقوں میں جس طرح قرضوں پر زیادہ سود وصول کیا جاتا ہے یہ غلام خریدنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جب انہوں نے پسماندہ علاقوں میں قرض دینا شروع کیے تو انہیں اندازہ ہوا کہ غریب ہمیشہ اپنا قرض واپس کرتا ہے۔