ڈھاکہ:بنگلہ دیش کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل وقار الزمان وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد کے مستعفی ہونے کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ شیخ حسینہ کے استعفیٰ کے بعد عبوری حکومت ملک چلائے گی، ہم بنگلہ دیش میں امن واپس لائیں گے۔
بنگلہ دیشی آرمی چیف نے کہا ہے کہ عبوری حکومت کے قیام کے لیے بات چیت جاری ہے، صدر سے جَلد ملاقات کروں گا، صدر سے ملاقات میں عبوری حکومت کے قیام پر بات ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ آرمی سے مذاکرات میں تمام اہم سیاسی جماعتیں شریک ہوں گی، عبوری حکومت کے قیام کے لیے عوامی لیگ کے سوا تمام سیاسی جماعتوں سے بات چیت ہوئی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ عوام پرتشدد اقدامات سے دور رہیں، عوام سے اپیل ہے فوج پر اعتماد رکھیں، عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کرتا ہوں۔
بنگلہ دیشی آرمی چیف وقار الزمان نے کہا ہے کہ ملک میں کرفیو یا ایمرجنسی کی کوئی ضرورت نہیں، آج رات تک مسائل کا حل تلاش کر لیں گے، کوشش ہے کہ اج رات تک معاملات سلجھ جائیں۔
بنگلہ دیشی آرمی چیف نے کہا کہ طلبہ پرامن رہیں اور اپنے گھروں کو واپس جائیں، عوام پر امن رہیں، اب کسی افرا تفری اور احتجاج ضرورت نہیں ہے۔
بنگلہ دیشی آرمی چیف کا کہنا ہے کہ مظاہروں کے دوران ہوئی ہلاکتوں کی تحقیقات کریں گے۔
بنگلہ دیشی آرمی چیف نے کہا ہے کہ ایک دو روز کے اندر تمام معاملات اچھے طریقے سے حل کرنے کی کوشش ہے، مکمل ذمہ داری لے رہا ہوں کہ ہر ہلاکت اور قتل کی مکمل تحقیقات ہوں گی، عوام کا ایک ایک مطالبہ تسلیم کیا جائے گا، عوام ہمارا ساتھ دیں۔
قبل ازیں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد استعفیٰ دے کر ڈھاکہ میں اپنی رہائش گاہ سے بھارت کے علاقے مغربی بنگال بذریعہ ہیلی کاپٹر منتقل ہو گئیں۔
برطانوی ویب سائٹ ’اسکائے نیوز‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ حسینہ واجد اور ان کی بہن گنابھابن (وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ) سے محفوظ مقام پر چلی گئی ہیں، حسینہ واجد تقریر ریکارڈ کرنا چاہتی تھی لیکن انہیں ایسا کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔
اس سے قبل خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق وزیر اعظم کے قریبی معاون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ صورتحال ایسی ہے کہ یہ بھی ایک امکان ہے، لیکن میں نہیں جانتا کہ یہ کیسے ہوگا؟
ان قریبی ذرائع نے بتایا تھا کہ وہ محفوظ مقام پر منتقل ہونے کے لیے ڈھاکہ محل سے روانہ ہو گئی ہیں۔
دوسری جانب بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے صاحبزادے نے پیر کو ملکی سکیورٹی فورسز پر زور دیا کہ وہ ان کی والدہ کے اقتدار پر کسی بھی طرح کے قبضے کی کوشش کو روکیں۔
امریکہ میں مقیم صجیب وازید جوئی نے فیس بک پر ایک پوسٹ میں کہا کہ آپ کا فرض ہے کہ ہم اپنے لوگوں اور ہمارے ملک کو محفوظ رکھیں اور آئین کو برقرار رکھیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی غیر منتخب حکومت کو ایک منٹ بھی اقتدار میں نہ آنے دیں، یہ آپ کا فرض ہے۔
اس سے قبل بنگلہ دیشں میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کے استعفے کا مطالبہ کرنے والے ہزاروں مظاہرین کی اتوار کو حکومت کے حامی ہجوم کے
ساتھ جھڑپیں ہوئیں جن میں 100 کے قریب افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بنگلہ دیش کی بنگالی زبان میں شائع ہونے والے اخبار روزنامہ ’پروتھم الو‘ نے بتایا کہ جھڑپوںمیں 14 پولیس افسران سمیت 95 افراد ہلاک ہو گئے۔ چینل 24 نیوز آؤٹ لیٹ نے 85 اموات رپورٹ کی ہیں۔
فوج نے اتوار کی شام دارالحکومت ڈھاکہ سمیت ملک کے بڑے شہروں میں غیر معینہ مدت کے لیے ایک نیا کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کیا۔
مظاہرین وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کے بعد گذشتہ ماہ شروع ہونے والے مظاہروں کا آغاز طالب علموں نے سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خاتمے کے لیے کیا تھا۔ یہ مظاہرے تشدد کی شکل اختیار کر گئے جس میں 200 سے زیادہ لوگ مارےگئے۔
جب نئے سرے سے تشدد برپا ہوا، حسینہ نے کہا کہ “تخریب کاری” اور تباہی میں مصروف مظاہرین اب طالب علم نہیں بلکہ مجرم ہیں، اور انہوں نے کہا کہ لوگوں کو ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے۔
مظاہرین وزیر اعظم شیخ حسینہ کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ وزیر اعظم ان پر ’تخریب کاری‘ کا الزام لگا رہی ہیں۔
حکومت نے بدامنی پر قابو پانے کے لیے موبائل فون سروس اور انٹرنیٹ بند کر دیا ہے اور واٹس ایپ سمیت فیس بک اور میسجنگ ایپس تک رسائی ممکن نہیں۔
جونیئر وزیر برائے اطلاعات و نشریات محمد علی عرفات نے اتوار کو کہا کہ تشدد کی روک تھام میں مدد کے لیے مختلف خدمات کی فراہمی بند کر دی گئی ہے۔
حکومت نے پیر سے بدھ تک چھٹیوں کا اعلان کیا ہے جبکہ عدالتیں غیر معینہ مدت کے لیے بند رہیں گی۔
گذشتہ ماہ طلبہ نے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خاتمے کا مطالبے پر مبنی احتجاج شروع کیا تھا جو بعد میں پرتشدد مظاہروں میں بدل گیا اور اب تک 200 سے زیادہ اموات کا سبب بنا۔
تشدد کی تازہ لہر کے دوران شیخ حسینہ نے کہا کہ ’تخریب کاری‘اور تباہی میں ملوث مظاہرین اب طالب علم نہیں بلکہ مجرم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے۔
حکمراں جماعت عوامی لیگ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ ظاہر کرتا ہے کہ ان مظاہروں پر مرکزی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور اب کالعدم جماعت اسلامی نے قبضہ جما لیا ہے۔
ڈھاکہ کے علاقے اترا میں پولیس نے سینکڑوں لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کی جنہوں نے اہم شاہراہ کو بند کر دیا تھا۔
مظاہرین نے گھروں پر حملہ کیا اور علاقے میں کمیونٹی ویلفیئر کے دفتر میں توڑ پھوڑ کی، جہاں حکمراں جماعت کے سینکڑوں کارکنوں نے پوزیشنیں سنبھال لیں۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دیسی ساختہ بموں کے چند دھماکوں اور گولیوں کی آوازیں سنی گئیں۔ مشرقی علاقے میں 20 افراد گولیوں کا نشانہ بنے۔
شمال مغربی ضلع سراج گنج میں کم از کم 18 افراد ہلاک ہوئے۔ ڈھاکہ میں پولیس ہیڈ کوارٹرز کے مطابق اس تعداد میں 13 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جو مظاہرین کے تھانے پر حملے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
پولیس نے بتایا کہ مشرقی ضلع کومیلا میں ایک اور افسر جان سے گیا۔ جنوب مشرقی بنگلہ دیش کے ضلع فینی میں حسینہ واجد کے حامیوں اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں پانچ افراد کی موت ہوئی۔
بنگلہ دیش میں حالیہ ہفتوں میں کم از کم 11 ہزار افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ بدامنی کے نتیجے میں ملک بھر میں سکول اور یونیورسٹیاں بھی بند کر دی گئیں جبکہ حکام نے ایک موقعے پر کرفیو نافذ کرتے ہوئے دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دیا۔
مظاہرین نے لوگوں سے حکومت کے ساتھ ’عدم تعاون‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے لوگوں پر زور دیا کہ وہ ٹیکس یا یوٹیلیٹی بل ادا نہ کریں اور اتوار کو کام پر نہ آئیں جو بنگلہ دیش میں کام کا دن ہوتا ہے۔ دفاتر، بینک اور فیکٹریاں کھل گئیں لیکن ڈھاکہ اور دیگر شہروں میں مسافروں کو کام پر پہنچنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔