واشنگٹن :برسوں سے صدر جو بائیڈن کے پاس ایسے لوگوں کے لیے تیار ردعمل رہا ہے جنہوں نے 81 سال کی عمر میں دوبارہ صدرکے لیے انتخاب لڑنے اور 86 سال کی عمر تک خدمات انجام دینے کے لیے ان کی مہارت اور فٹنس پر سوال اٹھائے تھے۔ وہ سوال اٹھانے والوں کو مسلسل صرف “مجھے دیکھو” کہتے رہے۔ لیکن ان دنوں میں جب لاکھوں امریکیوں نے انہیں گذشتہ جمعرات کی رات ایک مباحثے میں ٹھوکر کھاتے ہوئے دیکھا۔ اس میں بائیڈن نے بنیادی طور پر ایک نئی لائن اپنائی۔ انہوں نے ’مجھے دیکھتے رہو‘ کےبجائے “مجھ پر بھروسہ کرو” کہا۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق اگلی رات نیویارک میں ایک فنڈ ریزنگ تقریب میں انہوں نے کہا کہ “دوستوں! اگر مجھے پورے دل و جان سے یقین نہ ہوتا کہ میں یہ کام کر سکتا ہوں تو میں کبھی صدارتی الیکشن کےلیے امیدوار نہ بنتا‘‘۔
تاہم صدر کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ یہاں تک کہ ان کی ہنگامہ خیز بحث کے موقع پر سینا کالج کے تعاون سے کیے گئے نیویارک ٹائمز کے ایک سروے سے ظاہر ہوا کہ 69 فی صد ووٹرز اور 55 فی صد بائیڈن ووٹرز نے بائیڈن کو بہت بوڑھا قرار دیا۔ وہ ان کے صدارتی امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لینے کے لیے مطمئن نہیں۔ یہ کوئی نئی تشویش نہیں ہے تقریباً دو سال سے ڈیموکریٹک ووٹروں کی ایک بڑی اکثریت نے کہا ہے کہ وہ ایک نیا معیار رکھنے والا لیڈر چاہتے ہیں۔
اب عام امریکیوں کے ان مستقل خدشات کی بازگشت عوامی طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کےناقد طبقے کے بہت سے لوگوں کے ذریعہ اور نجی طور پر قانون سازوں، عطیہ دہندگان اور حکمت عملی سازوں کے ذریعہ کی گئی ہے، کیونکہ وہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف 2024 کی مہم کو کھونے کے بارے میں تشویش کا شکار ہیں۔ بہت سے لوگ ٹرمپ کو ایک وجودی خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ایوان نمائندگان میں ایک ڈیموکریٹک قانون ساز نے ڈیموکریٹک ڈونر وٹنی ٹِلسن کو ایک ٹیکسٹ میسج بھیجا جس میں انہوں نے لکھا کہ “بائیڈن کی بحث کی کارکردگی ایک تباہی تھی جس سے شاید کوئی بحالی نہ ہو”۔
بائیڈن کے بارے میں ٹیم پر ایک اور ذہنیت نمودار ہوئی جو یاد رکھے ہوئے ہے کہ کس طرح اس نے 4 سال قبل نامزدگی جیتنے اور ٹرمپ کو شکست دینے کے لیے شکوک و شبہات کا مقابلہ کیا۔ بائیڈن کے قریبی مشیروں میں سے ایک اور ان کے سینیٹ کے سابق چیف آف سٹاف ٹیڈ کاف مین نے کہا کہ “وہ واقعی اپنے بہترین مقام پر ہوتے ہیں جب ناقدین اس پر حد سے زیادہ رد عمل ظاہر کرتے ہیں اور اسے مسترد کرتے ہیں۔ بائیڈن کا ریکارڈ بہت اچھا ہے۔ میرے خیال میں انہیں رہنا چاہیے، وہ جدید تاریخ کے بہترین صدر ہیں”۔
صدر حالیہ دنوں میں کیمپ ڈیوڈ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ اکٹھے ہوئے۔ ان کے مشیر کسی بھی ممکنہ ممتاز ڈیموکریٹس کا سراغ لگانے میں تیزی سے کام کر رہے تھے جو ان کی پارٹی کے رہنما کو چھوڑ سکتے ہیں۔
اس موسم بہار میں بائیڈن کی پارٹی کے سینیر مشیروں نے تاریخ کے قریب ترین عام انتخابات کی بحث پر زور دیا، تاکہ ووٹرز کو ٹرمپ-بائیڈن کے دوبارہ میچ کی حقیقت کو قبول کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ وہ نہیں چاہتے کہ جو کچھ پولز میں دکھایا گیا ہے وہ نتائج اس کےمطابق آئیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب بائیڈن رائے عامہ کے جائزوں میں بہت پیچھے دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت سوچ یہ تھی کہ ایک بار جب یہ تضاد زیادہ واضح ہو جائے گا اور دشمنی ناقابل تردید ہو جائے گی تو وہ ڈیموکریٹس جو الگ ہونے کا سوچ رہے ہیں دوبارہ پارٹی میں شامل ہو جائیں گے۔
ڈیموکریٹس کا خیال ہے کہ بائیڈن کی عمر بڑھ رہی ہے، جیسا کہ زیادہ تر صدور کی ہوتی ہے، لیکن 2021ء کے اواخر میں وائٹ ہاؤس کے معالج نے ایک تبدیلی دیکھی کیونکہ اس نے اپنے “گلے کی صفائی” کو زیادہ کثرت سے نوٹ کیا۔ اس تبدیلی میں ان کی بول چال ایک سال پہلے کی نسبت “نمایاں طور پر سخت” ہوتی جا رہی تھی۔
بائیڈن کے معالجین نے اصرار کیا کہ وہ اپنی انتخابی مہم کو سنبھالنے کے قابل ہیں مگر وہ پہلے جیسی حالت میں نہیں ہیں۔
ٹھوکر کھانے اور گرنے کے بعد انہوں نے ایئر فورس ون میں سوار ہونے کے لیے چھوٹی سیڑھیوں کا استعمال شروع کیا۔ انہوں نے اپنے پیشرووں کے مقابلے میں کم پریس کانفرنسیں کیں، فائنل پری سپر باؤل انٹرویو نہیں دیا اور اس کے ایونٹس اور کانفرنسیں بھی جان بوجھ کر مختصر تھیں۔