دبئی :غزہ کی پٹی میں نو ماہ قبل جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک مسائل اسرائیلی وزیر اعظم کا پیچھا کر رہے ہیں۔ ان میں یرغمال اسرائیلیوں کی واپسی ، لڑائی کا اختتام ، بھڑکے ہوئے محاذ ، ملک کے اندر مظاہرے اور غداری کے الزامات جیسی گتھیاں شامل ہیں۔
اس صورت حال میں اسرائیلی صدر اسحاق ہرتصوغ نے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے بیت المقدس میں ایک تقریب میں اسرائیلیوں پر زور دیا کہ سیاسی مخالفین کے بیچ اشتعال انگیز بیانات اور غداری کے الزامات کی شدت میں کمی لائی جائے۔
اسرائیلی ٹی وی “چینل 13” کے مطابق صدر نے تکلیف دہ الفاظ کے استعمال سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس کا نتیجہ جسمانی تشدد کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ صدر اسحاق ہرتصوغ نے کہا کہ جب جماعتیں ایک دوسرے پر اسرائیل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کے الزامات لگائیں تو یہ واضح ہے کہ کوئی خوف ناک چیز ہونے جا رہی ہے، یہ لفظی تشدد سے شروع ہو گا اور یہاں پر ختم نہیں ہو گا۔
اتوار کی شام سوشل میڈیا پر ایک وڈیو کلپ وائرل ہوا جس میں غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں میں مارے جانے والے اسرائیلی قید ابن یوروم میزجر کی بیوی آیالا میزجر نظر آ رہی ہے۔ وہ لوگوں کے ایک مجمع کے سامنے بول رہی ہے کہ اگر بقیہ قیدی واپس نہ آئے تو “ہم پھانسی کے پھندے کے ساتھ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کا انتظار کریں گے”۔
واضح رہے کہ قیدیوں کی واپسی کے معاملے پر اسرائیل کے اندر مظاہروں کا سلسلہ ٹھنڈا نہیں ہوا ہے۔ ان مظاہروں کو پولیس کے تشدد نے اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کے بعد غصے سے بھرپور بیانات سامنے آئے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ، اسرائیلی فوج اور سکیورٹی اداروں کی قیادت اور دیگر ذمے داران کے خلاف تشدد آمیز بیانات کی مذمت کی ہے۔
اسی طرح نیتن یاہو کو شدت پسندوں کے مظاہروں کا بھی سامنا رہا جو فوج میں اپنی بھرتی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اس سے قبل سپریم کورٹ نے مذکورہ افراد کو طویل عرصے سے حاصل استثنا منسوخ کر دیا تھا۔
اس استثنا کو برقرار رکھنے کی کوششوں نے بہت سے اسرائیلیوں کو چراغ پا کر دیا جو کہ معمول کے مطابق فوجی خدمت انجام دیتے ہیں۔