Sunday, December 22, 2024
Homeکھیلیوکرین، غزہ اور پھر افغانستان تک، اولمپکس 2024 میں پالیسی کی پابندیاں

یوکرین، غزہ اور پھر افغانستان تک، اولمپکس 2024 میں پالیسی کی پابندیاں

لوزان:بین الاقوامی اولمپک کمیٹی اس موسم گرما میں پیرس میں منعقد ہونے والے اولمپک گیمز کے موقع پر “دنیا کو ایک ساتھ لانے” کی کوشش کر رہی ہے لیکن کیا وہ ان کھیلوں کو ایک ایسا “پرامن” ایونٹ بنانے میں کامیاب ہو جائے گی جو ملکوں اور لوگوں کو قریب لائے؟
اولمپک چارٹر میدان یا پوڈیم پر کسی بھی “سیاسی پروپیگنڈے” سے منع کرتا لیکن اولمپک ویلج میں یا پریس کانفرنسوں کے دوران اس کی اجازت دیتا ہے۔ 26 جولائی سے شروع ہونے والے اولمپک گیمز میں غزہ اور یوکرین کی جنگوں جیسے تنازعات کی عکاسی کیسے ہوگی؟
روس، بیلاروس اور یوکرین
فروری 2022 میں روس اور یوکرین کے درمیان جنگ شروع ہونے اور ماسکو کے لیے بیلاروس کی حمایت کی وجہ سے ایسا لگ رہا تھا کہ 2024 کے پیرس گیمز میں تینوں قومیتوں کے کھلاڑی اکٹھے ہوں گے۔ مارچ 2023 تک روس اور بیلاروس کے اولمپک گیمز پر پابندی عائد کر دی گئی کیونکہ یوکرینی باشندے اولمپک گیمز میں ان کی شرکت کی صورت میں بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دے رہے تھے۔
جب کیف نے 2023 کے موسم گرما میں اپنے اس موقف کو ترک کردیا تو بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے سخت شرائط کے تحت بتدریج روسیوں اور بیلاروسیوں کو بین الاقوامی مقابلوں میں دوبارہ شامل کرنے کے لیے کام کیا ۔ ان شرائط میں ایک تو یہ کہا گیا کہ وہ اپنی ذاتی صلاحیت کے ساتھ اور ایک غیر جانبدار جھنڈے کے نیچے حصہ لیں گے اور یوکرین میں جنگ کی فعال حمایت نہیں کریں گے۔ ان کی شرکت فوجی یا سکیورٹی ایجنسیوں کے تحت نہیں ہوگی۔ اتھارٹی نے روسیوں اور بیلاروسیوں پر پیرس میں دریائے سین پر افتتاحی مارچ میں شرکت پر بھی پابندی لگا دی۔
اتھارٹی نے 28 روسیوں اور 19 بیلاروسیوں کے ایک غیر جانبدار بینر کے تحت کوالیفائی کرنے پر اتفاق کیا۔ ان کی شرکت فی الحال نو شعبوں تک محدود ہے۔ ان شعبوں میں ریسلنگ، ٹرامپولین، روڈ سائیکلنگ، ویٹ لفٹنگ، تیر اندازی، ٹینس، روئنگ، جوڈو اور کینوئنگ شامل ہیں۔ توقع کی جارہی ہے کہ تمام کھیلوں کی اجازت بھی دے دی جائے گی۔ واضح رہے ٹوکیو میں 2020 کے اولمپک گیمز میں حصہ لینے والے روسیوں کی تعداد 330 اور بیلاروسیوں کی تعداد 104 تھی۔ حالیہ تعداد اس سے بہت کم ہے۔
یہ “غیر جانبدار ایتھلیٹس” مسلسل نگرانی میں ہوں گے تاکہ یوکرین میں روسی فوجی آپریشن کے لیے حمایت کا کوئی بھی مظاہرہ نہ کرسکیں۔ Z کا نشان ظاہر کرنا بھی ممنوع علامات میں ہوگا۔ اگر ایسی کوئی بھی علامت ظاہر ہوئی تو ان کا اولمپک گیمز سے فوری طور پر اخراج کیا جا سکے گا۔
فلسطین اور اسرائیل
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے بین الاقوامی اولمپک کمیٹی غیر جانبدار رہنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کمیٹی دو ریاستی حل کے لیے اپنی حمایت کی تصدیق کرتی اور 1995 سے فلسطینی اولمپک کمیٹی اور اس کے اسرائیلی ہم منصب کو تسلیم کرتی ہے۔
لہذا اس نے کبھی بھی اسرائیلی کھلاڑیوں کو غیر جانبدار بینر تلے پیش کرنے کا کام نہیں کیا حالانکہ سات اکتوبر سے غزہ پر مسلسل اسرائیلی بمباری نے پٹی میں کھیلوں کے بنیادی اداروں کو تباہ کر دیا اور فلسطینی اولمپک کمیٹی کے مطابق فلسطینی کھیلوں کی کمیونٹی کی نمایاں شخصیات کو ہلاک کر دیا ہے۔
جون کے وسط میں فلسطینی اولمپک کمیٹی کے صدر جبریل الرجوب نے امید ظاہر کی ہے کہ اولمپکس غزہ کی جنگ اور مغربی کنارے کی صورتحال پر زیادہ توجہ مبذول کرائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پیرس ایک تاریخی لمحہ ہے، وہاں جانا ایک بہترین لمحہ ہے اور دنیا کو بتانے کا وقت ہے کہ اب بس بہت ہوگیا۔
بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کے مطابق اولمپکس میں شرکت کرنے والی فلسطینی تنظیم کو دعوتی نظام کے تحت پیرس میں چھ سے آٹھ نمائندوں کو شامل کرنا چاہیے۔ اولمپک نظام مردوں اور عورتوں کی محدود تعداد کو شرکت کی اجازت دیتا ہے۔ چاہے وہ ضروری معیار پر پورا نہ بھی اتریں۔ اسرائیل کی جانب سے سیکورٹی فراہم کرنا اولین ترجیح ہے جیسا کہ 1972 میں میونخ گیمز کے بعد سے اولمپک گیمز کے ہر ایڈیشن میں ہوتا رہا ہے۔ اس وقت اولمپک گیمز میں 11 اسرائیلی ایتھلیٹس ہلاک ہوگئے تھے۔
افغانستان
۔2021 کے موسم گرما میں افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی نے کھیلوں کے حکام کے لیے ایک مخمصہ پیدا کردیا ہے۔ کھلاڑیوں اور ان کے ساتھیوں کی مدد کے لیے بات چیت اور دباؤ کو متوازن طریقے سے کام میں لایا جا رہا ہے۔ خواتین پر کھیلوں کی مشق کرنے پر پابندی عائد کیے بغیر انہیں شرکت کا موقع دیا جائے گا۔ جون کے وسط میں آئی او سی نے اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر بتایا کہ اس نے تین افغان مرد کھلاڑیوں (ایتھلیٹکس، تیراکی اور جوڈو) اور تین خواتین ایتھلیٹس (ایتھلیٹکس اور سائیکلنگ) پر مشتمل ایک ٹیم کی شرکت کی تصدیق کی ہے۔
افغان اولمپک کمیٹی کے ڈائریکٹر جنرل داد محمد بایندا نے کہا کہ جوڈو کے علاقے دیگر گیمز کے کھلاڑی بیرون ملک رہتے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ چونکہ افغانستان میں خواتین کے لیے کھیلوں پر پابندی ہے۔ اس لیے تین خواتین ایتھلیٹس کو ملک کے اندر سے نہیں بھیجا گیا۔
افغانستان جلاوطنوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے کے پناہ گزینوں کی اولمپک ٹیم میں پانچ نمائندے ہوں گے جن میں ٹیم لیڈر معصومہ علی زادہ بھی شامل ہیں۔ معصومہ علی زادہ نے حال ہی میں ایجنسی فرانس پریس کو بتایا تھا کہ میں بہت خوش ہوں کہ اولمپک گیمز میں تین افغان خواتین ہیں اور ان کی تعداد مردوں کے برابر ہے۔

RELATED ARTICLES
- Advertisment -
Google search engine

Most Popular

Recent Comments