Monday, December 23, 2024
Homeدنیاسات اکتوبر کے اہداف کی جگہ اسرائیل کا غزہ سے انخلا حماس...

سات اکتوبر کے اہداف کی جگہ اسرائیل کا غزہ سے انخلا حماس کا بنیادی مطالبہ بن گیا: فتح

دبئی:تحریک فتح نے حماس کے سرکردہ رہنما خلیل الحیہ کے بیانات کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ حماس اسرائیل کے ساتھ 5 سال یا اس سے زیادہ کی جنگ بندی پر راضی ہے۔ حماس نے کہا ہے کہ 1967 کی سرحدوں کے مطابق آزاد فلسطینی ریاست قائم ہوتی ہے تو وہ ہتھیار چھوڑ کر سیاسی جماعت بن جائے گی۔
تحریک فتح نے جمعرات کو العربیہ سے گفتگو میں کہا کہ ہم حماس کی طرف سے پی ایل او میں شامل ہونے اور صفوں کو متحد کرنے سے انکار کرنے کے بہت سے بہانے سنتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سات اکتوبر کے اہداف کی جگہ اسرائیل کا غزہ نکلنا حماس کا بنیادی مطالبہ بن گیا ہے۔
قیدیوں کے مذاکرات میں حماس کی نمائندگی کرنے والے خلیل الحیہ نے بدھ کے روز کہا تھا کہ حماس مغربی کنارے اور غزہ میں 1967 کی سرحدوں پر ایک مکمل خودمختار فلسطینی ریاست اور بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کو قبول کرے گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو حماس کے عسکری ونگ کو تحلیل کردیا جائے گا۔
انہوں نے استنبول سے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران یہ بھی کہا کہ حماس فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او ) جس کی سربراہی فتح تحریک کے پاس ہے میں شامل ہونا چاہتی ہے تاکہ غزہ اور مغربی کنارے کے لیے ایک متحدہ حکومت بنائی جاسکے۔
تاہم خلیل الحیہ نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا دو ریاستی حل کے واضح طور پر اختیار کرنے سے فلسطین اسرائیل تنازع کا خاتمہ ہو جائے گا یا اسرائیل کو تباہ کرنے کے حماس کے بیان کردہ ہدف کی جانب یہ ایک عارضی قدم ہوگا۔
اسرائیل کی جانب سے رفح پر حملے کے منصوبے کے حوالے بات کرتے ہوئے خلیل الحیہ نے کہا اس طرح کا کوئی اسرائیلی حملہ حماس کو تباہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی افواج نے اب تک انسانی اور میدانی بنیاد پر حماس کی 20 فیصد صلاحیتوں کو بھی تباہ نہیں کیا ہے۔
بیرون ملک سیاسی قیادت اور غزہ کے اندر عسکری قیادت کے درمیان رابطوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ان رابطوں میں کوئی خلل نہیں پڑا ہے۔ دونوں گروپوں کے درمیان مشاورت سے ہی فیصلے ہو رہے ہیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ حماس نے فلسطینی قیدیوں کی تعداد کے حوالے سے رعایتیں دی ہیں۔ یہ وہ فلسطینی قیدی ہیں جنہیں وہ غزہ میں باقی رہ جانے والے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے رہا کرانا چاہتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حماس کو قطعی طور پر نہیں معلوم کہ غزہ میں کتنے اسرائیلی قیدی اب بھی زندہ ہیں۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ حماس مستقل جنگ بندی اور غزہ کی پٹی سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلاء کے اپنے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔
دوسری طرف اسرائیل ماضی میں بارہا ان مطالبات کو مسترد کر چکا ہے اور اس بات پر زور دیتا آ رہا ہے کہ وہ حماس کی حتمی شکست تک اپنی فوجی کارروائیاں جاری رکھے گا۔ اسرائیل نے یہ اعلان بھی کر رکھا ہے کہ جنگ کے خاتمے کے بعد بھی اس کی غزہ میں حفاظتی موجودگی برقرار رہے گی۔

RELATED ARTICLES
- Advertisment -
Google search engine

Most Popular

Recent Comments