برطانیہ:غزہ میں اسرائیلی جنگ کا ساتواں ماہ شروع ہونے کے بعد پہلی بار برطانیہ کے اسرائیل کے بارے میں لہجے کی حد تک تبدیلی کا اشارہ سامنے آیا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے کہاکہ اسرائیل کے لیے برطانوی حمایت بین الاقوامی قانون کے تابع ہے۔ وزیر خارجہ نے ان خیالات کا اظہار ورلڈ سینٹرل کچن کی سات رکنی ٹیم کی اسرائیلی ڈرون حملوں میں ہلاکت کے بارے میں اتوار کے روز اخبار میں لکھے گئے ایک کالم میں کیا ہے۔
اس سات رکنی ٹیم میں تین برطانوی شہری بھی شامل تھے۔ جو اسرائیلی ڈرون حملوں میں غزہ میں اس وقت مارے گئے جب یہ اپنے باقی ساتھیوں کے ساتھ غزہ کے لوگوں کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد ایک گودام میں اتارنے کے بعد وہاں سے روانہ ہونے والے تھے۔
واضح رہے اسرائیل کی غزہ میں جنگ کے چھ ماہ کے دوران 33 ہزار سے زائد فلسطینی پہلے ہی ہلاک ہو چکے تھے۔ جن میں زیادہ تر فلسطینی عورتیں اور بچوں شامل ہیں۔ اس سے قبل ماہ جنوری میں بین الاقوامی عدالت انصاف اسرائیلی فوج کے ہاتھوں نسل کشی کے حوالے سے ایک حکم بھی جاری کر چکی ہے۔ تاہم برطانیہ نے پہلی بار اسرائیل کے لیے اپنی حمایت کو بین الاقوامی قانون کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کی ہے۔
ڈیوڈ کیمرون نےسنڈے ٹائمز میں لکھا ہےکہ ہماری اسرائیل کے لیے امداد غیر مشروط نہیں ہے۔ ہم ایک قابل فخر اور کامیاب جمہوریت کی توقع کرتے ہیں جو بین الاقوامی قوانین کے تابع ہو ۔ حتیٰ کہ جب اسے چیلنجوں کو سامنا بھی ہو تو یہ بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرے۔
برطانیہ جس نے شروع دن سے اسرائیل کے ایک غیر معمولی اور بڑے اتحادی کے طور پر ہمیشہ مدد کی ہے اور اسرائیل کا محسن ملک ہے نے سات اکتوبر 2023 کی جنگ کے آغاز سے ہی اپنا وزن اسرائیل کے حق میں ڈالا ہے۔ نتیجتاً اسرائیل کو بغیر کسی رکاوٹ کے غزہ میں اپنے جنگی اہداف کے لیے جو چاہا کرنے کی اجازت رہی ہے۔ لیکن اب جنگ کے ساتویں مہینے میں داخل ہونے کے ساتھ ہی برطانوی وزیر خارجہ نے سخت لہجے میں بات کی ہے۔
کیمرون نے خبر دار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے انسانی بنایدوں پر خوراک کی تقسیم میں رکاوٹیں دور نہ کیں تو غزہ میں بھوک اور قحط کا خطرہ ہو گا۔ انہوں نے بحری راستے سے امدادی کارروائیوں کا حصہ بننے کے حوالے سے برطانوی ارادے کا بھی ذکر کیا۔
برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے اس کام سے ایک روز قبل ہی اسرائیل کے لیے اپنے دیرینہ موقف کا اعادہ کرتے ہوئے اسرائیل کے جس حق دفاع کی پہلے حمایت برطانیہ کرتا رہا ہے اسی کو انہوں نے مزید پھیلاتے ہوئے حماس کے خلاف اسرائیل کے اب اس حق کی حمایت کا اعلان کیا کہ وہ حماس کو شکست دینے کا حق رکھتا ہے۔ تاہم رشی سونک نے کہا برطانیہ خونریزی پر سخت کرب میں ہے۔ خصوصاً برطانوی ہیروز کی ہلاکت پر بہت رنجیدہ ہے۔
برطانوی حکومت اس سلسلے میں خود بھی اسرائیل کے بارے میں ایک قانونی ہدایت جاری کرنے کے لیے دباؤ میں ہے کہ وہ اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی کے حوالے سے امکانی طور پر قدغن لگا سکتی ہے۔ جیسا کہ پچھلے ہفتے برطانوی سپریم کورٹ کے تین سابق جج حضرات سمیت کئی ججوں اور 600 کے قریب قاننون دانوں نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو اسلحہ کی سپلائی روک دے۔
اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کےخارجہ امور کے ذمہ دار ڈیوڈ لیمے نے حکومت برطانیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ حالیہ قانونی مشورے کو شائع کرے۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے لیمے کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی قوانین برائے انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر خدشات ہیں۔ اسرائیل کو اسلحہ فروخت کے ذریعے برطانیہ کے برآمدی اور لائسنسنگ نظام کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
نائب وزیراعظم برطانیہ اولیور ڈاؤڈن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ‘قانونی مشاورت کی اشاعت سے متعلق ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ نیز نائب وزیراعظم برطانیہ نے اس امر سے انکار کیا ہے کہ حکومت برطانیہ اسرائیل کوکارٹ بلانچ فراہم کر رہی ہے۔