نیویارک:اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے جمعے کو پاکستان کی ایک قرارداد منظور کر لی ہے جس میں اسرائیل کو غزہ کی پٹی میں ممکنہ جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ذمہ دار ٹھہرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق قرارداد کے حق میں 28 ممالک نے ووٹ دیا، 13 غیر حاضر رہے اور چھ نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے حوالے سے انڈیپنڈنٹ اردو نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے قرارداد میں غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے دوران فلسطینی شہریوں کی نسل کشی کے انتباہ کو اجاگر کرتے ہوئے اسرائیل کو اسلحے کی فروخت روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ جب اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اعلیٰ ادارے نے محصور فلسطینی علاقے کو ہدف بناتے ہوئے اب تک کی سب سے خونریز جارحیت کے بارے میں کوئی موقف اختیار کیا ہے۔
قرارداد کے متن میں ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کو اسلحے، گولہ بارود اور دیگر فوجی سازوسامان کی فروخت اور منتقلی بند کریں۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ’بین الاقوامی انسانی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘ کو روکنے کے لیے دیگر اقدامات سمیت اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی روکنے کی کی ضرورت ہے۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی عدالت انصاف نے جنوری میں فیصلہ دیا تھا کہ غزہ میں ’نسل کشی کا خطرہ ہے۔‘
پاکستان نے البانیہ کو چھوڑ کر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے تمام رکن ممالک کی طرف سے جمعے کو یہ قرارداد پیش کی۔ قرارداد میں غزہ میں ’فوری فائربندی‘ اور ’ہنگامی بنیادوں پر انسانی رسائی اور امداد‘ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
قبل ازیں گذشتہ ہفتے نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی بالآخر ایک قرارداد منظور کی جس میں فائر بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ امریکہ نے اس قرارداد پر رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جو اسرائیل کا قریبی اتحادی اور اسلحے کے سب سے بڑا فراہم کنندہ ہے۔
وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر کے بعد سے حماس کے زیر انتظام غزہ میں اسرائیل حملوں میں کم از کم 33037 فلسطینی شہری جان گنوا چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔
قرارداد کے سخت الفاظ میں لکھے گئے متن میں بار بار اسرائیل کا نام لیا گیا ہے اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ’قابض طاقت‘ ہے۔
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل تمام فلسطینی علاقوں پر اپنا قبضہ ختم کرے اور ’غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی اور تمام قسم کی دیگر اجتماعی سزائیں دینا فوری طور پر ختم کرے۔‘
ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ’غزہ میں اور وہاں سے فلسطینیوں کی مسلسل جبری منتقلی رکوائیں۔‘
قرارداد میں خاص طور پر غزہ کی گنجان آباد پٹی کے جنوب میں واقع شہر ’رفح میں بڑے پیمانے پر اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے خلاف‘ خبردار کیا گیا ہے جہاں 10 لاکھ سے زیادہ فلسطینی شہریوں نے پناہ لے رکھی ہے۔
قرارداد کے مسودے میں غزہ میں شہریوں کی بھوک کو جارحیت کے طریقے کے طور پر استعمال کرنے کی بھی مذمت کی گئی ہے، جہاں اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ قحط جاری ہے۔
قرارداد می انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رسائی سے اسرائیل کے غیر قانونی انکار، امدادی سامان کی فراہمی میں جان بوجھ کر رکاوٹ ڈالنے اور خوراک، پانی، بجلی، ایندھن اور ٹیلی کمیونیکیشن سمیت شہریوں کی بقا کے لیے ناگزیر سامان سے محروم کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔
قرارداد کے متن میں اسرائیل کی جانب سے غزہ کے گنجان آباد علاقوں میں دھماکہ خیز ہتھیاروں کے استعمال کی بھی مذمت کی گئی ہے۔
قرارداد کے مسودے میں اس حقیقت کی مذمت کی گئی ہے کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے متعدد تحقیقات میں تعاون کرنے سے مسلسل انکار کیا ہے۔
قرارداد میں غزہ میں ’بین الاقوامی قانون کی تمام خلاف ورزیوں کے قابل اعتماد، بروقت اور جامع احتساب کی ضرورت‘ پر زور دیا گیا ہے۔
مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورت حال کے بارے میں انکوائری کمیشن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کو اسلحے، گولہ بارود، پرزوں اور دوہرے استعمال کے سامان کی براہ راست اور بالواسطہ منتقلی یا فروخت کی تحقیقات کرے۔
تفتیش کاروں کونسل کے 59 ویں اجلاس میں اپنے نتائج پیش کریں جو 2025 کے وسط میں ہو گا۔