نیویارک:اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پیر کو غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ اس معاملے پر ہونے والی ووٹنگ میں امریکہ نے حصہ نہیں لیا۔
غزہ میں ’فوری‘ فائر بندی سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیر کو نئی قرارداد کے مسودے پر ووٹنگ ہوئی کیوں کہ روس اور چین نے امریکہ کی جانب سے پیش کردہ پہلے متن کو ویٹو کر دیا تھا۔
جنگ کے آغاز کے تقریباً چھ ماہ بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پہلی بار غزہ پٹی میں ’فوری جنگ بندی‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ ویٹو پاور امریکہ نے اس ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور اسی وجہ سے یہ قرارداد منظور ہو سکی۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پیر (25 مارچ) کے روز اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے درمیان فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا۔ امریکہ کی جانب سے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا گیا۔ اس قرارداد میں تمام مغویوں کی بھی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
پندرہ رکنی سلامتی کونسل کے باقی 14 اراکین نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، جسے سلامتی کونسل کے دس منتخب اراکین نے تجویز کیا تھا۔ امریکہ آج تک غزہ پٹی میں جنگ بندی سے متعلق قرارداد کے متن میں’جنگ بندی‘ کے الفاظ کے استعمال کے خلاف تھا اور اس نے اپنے اتحادی ملک اسرائیل کی حمایت میں ماضی میں اپنی ویٹو پاور کا استعمال بھی کیا تھا۔ لیکن عالمی سطح پر جنگ بندی کے لیے دباؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج کی ووٹنگ میں امریکہ قرارداد کو ویٹو کرنے کی بجائے غیر حاضر رہا۔
سلامتی کونسل کی قرارداد میںپوری غزہ پٹی میں شہریوں کے تحفظ کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد کے بہاؤ کو بڑھانےکے ساتھ ساتھ اس کو تقویت دینے کی فوری ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے جبکہ بڑے پیمانے پر انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کے مطالبے کا بھی اعادہ کیا گیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے ریڈیو نے سلامتی کونسل کا اجلاس شروع ہونے سے کچھ ہی دیر قبل اطلاع دی تھی کہ اگر امریکہ نے یہ قرارداد ویٹو نہ کی تو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اپنا واشنگٹن کا طے شدہ دورہ منسوخ کر دیں گے۔
اسرائیلی وفد کا دورہ امریکہ منسوخ
سلامتی کونسل کی طرف سے ’’رمضان فائر بندی‘‘ کی قرارداد کی منظوری کے فوراً بعد اسرائیل نے اپنے ایک اعلیٰ سطحی وفد کو امریکہ بھیجنے کا منصوبہ منسوخ کر دیا ہے۔ وزیر اعظم نیتن یاہو کے مطابق امریکی پوزیشن میں تبدیلی نے جنگ اور یرغمالیوں کی رہائی کی کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
دریں اثنا امریکہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ امریکہ نے یہ بھی کہا ہے،’’غزہ میں جنگ بندی صرف اسی صورت شروع ہو سکتی ہے اگر حماس یرغمالیوں کی رہائی شروع کرے۔‘‘
دوسری جانب فرانس نے مطالبہ کیا ہے کہ سلامتی کونسل کی طرف سے منظور کردہ’’رمضان فائر بندی‘‘ کی قرارداد کو مستقل جنگ بندی میں تبدیل ہونا چاہیے۔
قبل ازیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے بھی پیر کے روز کہا تھا کہ اسرائیل کو فائر بندی کی ضرورت کے بارے میں بتانے کے لیے بین الاقوامی اتفاق رائے بڑھ رہا ہے جبکہ رفح پر اسرائیلی حملہ وسیع تر انسانی تباہی کا سبب بنے گا۔
قبل ازیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے بھی پیر کے روز کہا تھا کہ اسرائیل کو فائر بندی کی ضرورت کے بارے میں بتانے کے لیے بین الاقوامی اتفاق رائے بڑھ رہا ہےقبل ازیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے بھی پیر کے روز کہا تھا کہ اسرائیل کو فائر بندی کی ضرورت کے بارے میں بتانے کے لیے بین الاقوامی اتفاق رائے بڑھ رہا ہے
رفح کا علاقہ مصر کے ساتھ غزہ پٹی کی جنوبی سرحد پر دس لاکھ سے زائد فلسطینیوں کی آخری پناہ گاہ ہے اور یہ بھی ان علاقوں میں شامل تھا، جو اسرائیل کے تازہ ترین حملوں کی زد میں آئے ہیں۔