واشنگٹن:حوثی ملیشیا نے بحیرہ احمر میں تجارتی بحری جہازوں پر اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں 15 تجارتی بحری جہاز متاثر ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب امریکہ اور برطانیہ سمیت دوسرے اتحادی ممالک حوثیوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
امریکی اخبار ’ فنانشل ٹائمز‘ نے باخبر ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ امریکی اور ایرانی حکام کے مطابق امریکہ نے اس سال ایران کے ساتھ خفیہ بات چیت کی تھی تاکہ تہران کو یمن کی حوثی تحریک پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملوں کو روکنے پر قائل کیا جائے۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق حکام نے کہا کہ یہ بالواسطہ مذاکرات تھے ۔ اس کے دوران واشنگٹن نے ایران کے جوہری پروگرام میں توسیع کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا۔ یہ مذاکرات جنوری میں عمان میں ہوئے یہ دونوں حریف ملکوں کے درمیان دس ماہ میں پہلی مرتبہ تھے۔
امریکی وفد کی سربراہی وائٹ ہاؤس کے مشرق وسطیٰ کے مشیر بریٹ میک گرک اور ایران کے لیے ان کے خصوصی ایلچی ابرام بالی، ایرانی نائب وزیر خارجہ علی باقری کنی کررہے تھے۔ باقری تہران میں جوہری مذاکرات کار کے طور پر بھی کام کرچکے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ عمانی حکام نے ایرانی اور امریکی نمائندوں کے درمیان پیغامات پہنچائے جنہوں نے براہ راست بات نہیں کی۔
مذاکرات میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح بائیڈن انتظامیہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے بعد مسلح گروپوں کی طرف سے کی شروع کی جانے والی فوجی کارروائیوں کی لہر کو پرسکون کرنے کی کوشش میں اپنے مخالف کے ساتھ فوجی ڈیٹرنس کے ساتھ سفارتی ذرائع استعمال کر رہی ہے۔
اس معاملے سے واقف ایک شخص نے کہا کہ امریکی حکام ایران کے ساتھ بالواسطہ چینل کے قیام کو “ایران سے لاحق خطرات کی مکمل رینج پر بات چیت کرنے کے ایک طریقہ کے طور پر دیکھتے ہیں، جس میں یہ بتانا بھی شامل ہے کہ انہیں وسیع تر تنازعے کو روکنے کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
میک گرک کی شرکت کے ساتھ مذاکرات کا دوسرا دور فروری میں ہونا تھا، لیکن اسے اس وقت ملتوی کر دیا گیا جب وہ غزہ میں جنگ کو روکنے اور اسرائیل کے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدہ کرانے کی امریکی کوششوں میں شامل تھے۔
امریکہ اور ایران کے درمیان آخری معلوم مذاکرات گزشتہ مئی میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات تھے۔
امریکی حکام نے تہران پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ حوثیوں کو بحری جہازوں پر حملے کرنے کے لیے ڈرون، میزائل اور انٹیلی جنس معلومات فراہم کر رہا ہے۔
ایران شمالی یمن پر قابض حوثیوں کی حمایت کو تسلیم کرتا ہے اور ان کے حملوں کو فلسطینیوں کی حمایت کے طور پر جائز قرار دیتا ہے۔
ایران کا دعویٰ ہے کہ حوثی اس کے حکم کے پابند نہیں بلکہ آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں۔