غزہ:فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے غزہ میں جاری صورت حال اور غزہ کے مستقبل کے بارے میں تبادلہ خیال کے لیے ترکیہ کا دورہ کرنے جا رہے ہیں۔ اس امر کی اطلاع ترکیہ کے وزیر خارجہ خاقان فیضان نے اتوار کے روز ایک سفارتی تقریب کے دوران اپنی اختتامی کلمات کے دوران دی ہے۔
محمود عباس جو فلسطینی سیاست میں فتح گروپ کی سربراہی کرتے ہوئے حماس کے حریف مانے جاتے ہیں 1993 کے اوسلو معاہدے کے تحت انتہائی محدود اختیار کی حامل فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ ہیں اور رملہ میں اتھارٹی کی قیادت کرتے ہیں۔
وہ ایک ایسے مرحلے پر ترکیہ پہنچ رہے ہیں جب غزہ میں پانچ ماہ سے جاری اسرائیلی جنگ میں رمضان سے قبل ایک نسبتاً طویل وقفے پر اتفاق کی توقع کی جارہی ہے ۔ اس جنگ بندی کا امکان امریکہ ، قطر اور مصر کی ثالثی کی کوششوں کے باعث متوقع ہے۔ جس کے تحت اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں امدادی سامان کی بلاتعطل فراہمی کا معاملہ بھی اہم ہے۔
دوسری جانب غزہ کے سیاسی مستقبل کے لیے اسرائیل اور اس کی اتحادی قوتیں تیزی سے غور کی طرف مائل ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کی قیادت بھی اس معاملے میں اس سوچ کی حمایت کرتی ہے کہ غزہ کی حکمرانی اور فلسطینی اتھارٹی کا کنٹرول ایک ہی باڈی کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں فلسطینی گروپ ماسکو میں مذاکرات کر چکے ہیں اور اب محمود عباس ترکیہ آرہے ہیں۔
ترکیہ غزہ مین اسرائیلی جنگ کا مخالف اور مسلسل جنگ بندی کا حامی ہونے کے ساتھ ساتھ فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کا حامی ہے اور امریکہ و یورپ کی طرح حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار نہیں دیتا بلک اس کے نزدیک دہشت گردی کا ارتکاب اسرائیل نے غزہ میں جاری رکھا ہوا ہے۔ واضح رہے اسرائیل اب تک غزہ میں 30410 فلسطینیوں کو قتل کر چکا ہے۔
ترکیہ کے وزیر خارجہ خاقان فیضان نے کہاکہ رماضان المبارک سے پہلے جنگ بندی انتہائی ضروری ہے۔اس پس منظر میں صدر عباس صدر ترکیہ کی دعوت پر منگل کے روز انقرہ پہنچ رہے ہیں۔ دونوں رہنما فلسطینی منظر نامے پر ہونے والی پیش رفت پر تبادلہ خیال کریں گے ، نیز فلسطینی گروپوں کے درمیان تعلقات اور اشتراک کے موضوع پر بھی بات ہو گی۔