یروشلم:اسرائیلی وزیر خزانہ بذالیل سموٹریچ نے ایک بار پھر بین الاقومی قوانین ، قرار دادوں اور دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے عندیہ دیا ہے کہ یہودی بستیوں کی مقبوضہ مغربی کنارے میں تعمیرات جاری رہے گی۔ اسرائیلی وزیر خزانہ اور یہودیوں کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت کے سربراہ سموٹریچ نے منگل کے روز نئی یہودی بستیوں کی منظوری کا اعلان کیا ہے۔
نئے اعلان کے مطابق یہودی بستی کو مشمار یہودا کے نام سے غوش عتصمون کے علاقے میں یروشلم کے جنوب میں پہلے سے موجود یہودی بستیوں کے گڑھ میں ہوگی۔ سموٹریچ نے کہا مزید یہودی بستیوں کی تعمیر کی منظوری کا کام بھی جاری رہے گا۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا کام جاری رکھیں گے۔
ابھی پچھلے ہفتے ہی اسرائیلی حکومت نے پہلے سے موجود یہودی بستیوں میں مزید 33000 نئے یہودیوں کو لا کر آباد کرنے کے لیے انہیں گھر بنا کر دینے کا فیصلہ سنایا ہے۔ یہ 33000 نئے گھر تین مختلف یہودی بستیوں میں بنانے کا کہا گیا ہے۔ گویا ایک جانب پرانی یہودی بستیوں میں توسیع کا کام جاری ہے اور دوسری جانب نئی یہودیوں بستیوں کی منظوری دی جارہی ہے۔
یہ اس کے باوجود ہے کہ امریکہ بھی بظاہر اسرائیل کی ان یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے محض چند روز پہلے یہ کہا تھا کہ واشنگٹن یہودی بستیوں کو بین الاقوامی قوانین کے خلاف سمجھتا تھا۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس دیرینہ امریکی موقف کو واپس لے لیا تھا۔
اب بلنکن کے اس بیان کے محض چند دن میں اسرائیل میں یہ پیش رفت ہوئی ہے۔ اسرائیل سمجھتا ہے کہ جوبائیڈن کو اگلے صدارتی انتخاب کے لیے بہت سارے پہلووں پر خاموشی رکھنا پڑے گی۔ اس لیے یہ بہترین موقع ہے کہ حماس بھی اس وقت مشکلات میں ہے۔
ٹرمپ کے بعد اس موقف کی تبدیلی سے امریکہ ایک بار پھر دنیا کی اکثریت کے ساتھ ہو گا جو دنیا سمجھتی ہے کہ یہودی بستیوں کی تعمیر غیر قانونی ہے اور اسرائیل کو حق نہیں ہے کہ 1967 کے مقبوضہ علاقوں یہ بستیاں قائم کرے۔ تاہم اسرائیل اس سے اتفاق نہیں کرتا اس کا کہنا ہے کہ یہ اس کے فلسطین سے متعلق تاریخی دعوے اور بائیبل کے حوالے سے یہ اس کا حق ہے۔
یروشلم کے نزدیک گوش ایٹزیون کی علاقائی کونسل کے مئیر شلومونیمن اس بارے میں کہتے ہیںکہ ہمارا دنیا کے لیے یہی جواب ہے کہ ہم مزید آگے بڑھیں گے اور مزید نئی رہائشوں ، سکولوں اور سڑکوں کی تعمیر کے ساتھ گوش ایٹزیون کو زیادہ مستحکم کریں گے۔
اس کے برعکس فلسطینیوں کا موقف بڑاواضح ہے کہ یہودی بستیوں کی تعمیر و توسیع دونوں ہی اسرائیل کی اس لیے پالیسی ہیں کہ اس کے نتیجے میں مشرقی یروشلم کو دارالحکومت بناتے ہوئے آزاد فلسطینی ریاست کے وجود میں آنے میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔ مگریہ صورت حال فلسطینیوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔
تاہم امن کی حامی ایک تنظیم ’اب امن‘ نے اپنی پچھلے ماہ کی رپورٹ میں کہا ہے کہ سات اکتوبر کوغزہ جنگ کے آغاز سے ہی یہودی آباد کاری کے لیے مقبوضہ مغربی کنارے میں کام تیز کر دیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ سموٹریچ شروع سے یہودی بستیوں کے کٹر حامی سمجھے جاتے ہیں اب نیتن یاہو کی مخلوط حکومت میں ان کا اثرو رسوخ غیر معمولی ہے۔ اس لیے وہ پہلے سے بڑھ کر یہودی بستیوں کے لیے سرگرم ہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کی 279 بستیوں میں سات لاکھ سے بھی کم یہودی آباد کار رہتے ہیں۔ یہ تعداد 2012 میں 520000 تھی۔