واشنگٹن:امریکی یونیورسٹی ٹیکساس اے اینڈ ایم نے جمعہ کو کہا کہ اپنا قطر کیمپس بند کرنے والی ہے۔ اس اقدام کے لیے شرقِ اوسط کی عدم تحفظ کی صورتِ حال کو ذمہ دار قرار دیا گیا۔ اس فیصلے پر خلیجی امارات میں یونیورسٹی کے شراکت دار کی طرف سے تنقید کی گئی۔
یونیورسٹی نے کہا کہ اس نے شرقِ اوسط میں عدم استحکام کی وجہ سے 2023 کے موسمِ خزاں میں قطر میں یونیورسٹی کی موجودگی کا دوبارہ جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔
چیئرمین بل مہومس نے ایک بیان میں کہاکہ بورڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ ٹیکساس اے اینڈ ایم کے بنیادی مشن کو بنیادی طور پر ٹیکساس اور ریاست ہائے متحدہ میں ہی آگے بڑھانا چاہیے۔
۔2003 میں کھلنے والے کیمپس کو ختم ہونے میں چار سال لگیں گے۔
۔7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے غیر معمولی حملوں کے نتیجے میں غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے ریاست ہائے متحدہ میں کالجوں کو شدید سیاسی جانچ پڑتال کا سامنا ہے جس میں یہود دشمنی کے الزامات بھی شامل ہیں۔
قطر ایک بڑے امریکی فوجی اڈے کی میزبانی کرنے والا امریکی اتحادی ہے جو حماس کے دفتر کی میزبانی بھی کرتا ہے اور اس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی مرکزی رہائش گاہ کے طور پر یہ بات دوگنا اہمیت کی حامل ہے۔
خلیجی ریاست نے واشنگٹن کی بخشش سے حماس کے ساتھ ایک مواصلاتی چینل کے طور پر کام کیا ہے اور غزہ میں ایک نئی جنگ بندی کے لیے مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے جو ایک ہفتے کے وقفے کی سابقہ جنگ بندی کی طرح ہو گی جس میں فلسطینی گروپ حماس نے گزشتہ نومبر میں 100 سے
ٹیکساس اے اینڈ ایم اور نصف درجن دیگر امریکی یونیورسٹیوں کی شراکت دار قطر فاؤنڈیشن نے کہا کہ یہ فیصلہ فاؤنڈیشن کے مفادات کو نقصان پہنچانے والی غلط معلومات کی مہم کے زیرِ اثر کیا گیا ہے۔
غیر منافع بخش تنظیم نے وضاحت کیے بغیر کہاکہ یہ پریشان کن ہے کہ یہ غلط معلومات فیصلے میں فیصلہ کن عنصر بن گئی ہے جبکہ اس شراکت داری سے قطر اور امریکہ دونوں کے لیے جو اہم مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں ان پر کوئی غور نہیں کیا گیا۔
ٹیکساس اے اینڈ ایم کو اس سے قبل بے بنیاد الزامات سے انکار کرنے پر مجبور ہونا پڑا کہ قطر میں اس کی موجودگی خلیجی ریاست کو حساس تحقیق تک رسائی فراہم کرتی ہے۔
قطر میں امریکی سفیر ٹمی ڈیوس نے کہا وہ مایوس ہیں کہ ٹیکساس اے اینڈ ایم اپنے قطر کیمپس کو بند کرنے کے اقدامات کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا، کیمپس امریکی اقدار کی نمائندگی کرتا ہے اور ان طلباء کے لیے جدت طرازی کی ترغیب دیتا ہے جو بصورت دیگر امریکی تعلیم تک رسائی نہیں رکھتے۔
اسرائیل پر حماس کے حملے کے نتیجے میں تقریباً 1160 افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
جواب میں اسرائیل نے حماس کو ختم کرنے کا عزم کیا اور فضائی حملے اور زمینی کارروائی کی جس میں حماس کے زیرِ انتظام علاقے میں وزارتِ صحت کے مطابق کم از کم 27947 افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔
اسرائیل نے کہا ہے کہ مزاحمت کاروں نے 250 افراد کو یرغمال بنایا جن میں سے 132 اب بھی غزہ میں موجود ہیں لیکن 29 کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔